دیارِ عشق میں کب استخارے کام آئے
دلِ بیتاب کے سب ہی اشارے کام آئے
ہمیں جس طور برتا زندگی نے وہ زیاں تھا
جو ہم نے زندگی کے دن گزارے کام آئے
بیاں کرنے کو اپنے چاک داماں کی حقیقت
نصابِ ہجر کے سارے شمارے کام آئے
منافع بخش یوں ٹھہرا ہمارا کارِ ہستی
ہوئے اس راہ میں جتنے خسارے کام آئے
محبت کے دیئے روشن رہے تھے جن کے دم سے
انہیں کے نقشِ پا آخر ہمارے کام آئے
نہیں ہے واقفیت ہم کو آدابِ طلب سے
مگر پلکوں پہ جو چمکے ستارے، کام آئے
سنبھلنے کے لیئے کافی ہے تنکے کا سہارا
ہم ایسے بے ہنر کو کب سہارے کام آئے
ہمیں پہلے ضیاء گرداب سے لڑنا پڑا ہے
بھنور نے پاؤں چھوڑے تب کنارے کام آئے
ضیاء زیدی