سازشوں کے زاویئے میں آگئے
نام پھر کچھ سانحے میں آگئے
خوش گمانی حیرتوں میں ڈھل گئی
عکسِ تازہ آئینے میں آ گئے ۔۔۔
اک تعلق کو نبھانے کے لیئے
بے بسی کے دائرے میں آ گئے
خود سے ہی ہونے لگا ہے اختلاف
ہم ذرا کچھ ضابطے میں آ گئے
یہ ہوا ہے آستیں کو جھاڑ کر
دشمنوں سے رابطے میں آ گئے
ہجر سے خوابوں کا رشتہ جوڑ کر
ہم مسلسل رتجگے میں آگئے
کتنی امیدوں نے دفنایا ہمیں۔۔
خواہشوں کے مقبرے میں آگئے
جل اٹھے گے منزلوں کے سب چراغ
ہم ضیاء جب قافلے میں آگئے
ضیاء زیدی