زندگی بھر ایک ہی کار ہنر کرتے رہے
اک گھروندا ریت کا تھا جس کو گھر کرتے رہے
۔
ہم کو بھی معلوم تھا انجام کیا ہوگا مگر
شہر کوفہ کی طرف ہم بھی سفر کرتے رہے
۔
اڑ گئے سارے پرندے موسموں کی چاہ میں
انتظار ان کا مگر بوڑھے شجر کرتے رہے
۔
یوں تو ہم بھی کون سا زندہ رہے اس شہر میں
زندہ ہونے کی اداکاری مگر کرتے رہے
۔
آنکھ رہ تکتی رہی دل اس کو سمجھاتا رہا
اپنا اپنا کام دونوں عمر بھر کرتے رہے
۔
اک نہیں کا خوف تھا سو ہم نے پوچھا ہی نہیں
یاد کیا ہم کو بھی وہ دیوار و در کرتے رہے
عنبرین حسیب عنبر