دل کہتا ہے بے خوف و خطر بات کرے گا
جو کچھ بھی ہو ظالم سے مگر بات کرے گا
کیوں ہاتھ نہیں روکتے تم آراکشوں کا
اس بار پرندوں سے شجر بات کرے گا
وہ خوش نوا،خوش شکل،وہ جادو بیاں شاعر
وہ چُپ بھی رہے گا تو ہُنر بات کرے گا
آجائیں گے پھر جانِ غزل ہوش ٹھکانے
تنہائی کا جب پچھلا پہر بات کرے گا
لگ جائے گا پھر ناز پتا تیرے سخن کا
جب صاحبِ فن نقد ونظر بات کرے گا
ناز مظفر آبادی