24/02/2025 05:32

تو بدمزاج تھا تو نے بھی التجا نہیں کی

تو بدمزاج تھا تو نے بھی التجا نہیں کی
جو اب فقیر سے تکرار ہے ، دعا نہیں کی

میں خاندان کی پابندیوں سے واقف تھی
خدا کا شکر ہے اس شخص نے وفا نہیں کی

اذیتیں ہی سہی دل کی چوٹ بھی ہے عزیز
پرانا زخم رفو کر لیا ، دوا نہیں کی۔

ہزار بار اجاڑا ہے زندگی نے مجھے
برا ضرور منایا ہے بد دعا نہیں کی

وہ عشق و رزق میں فاقوں پہ آنے والے ہیں
خدا کے نام سے جس جس نے ابتدا نہیں کی

ترے غرور سے بڑھ کر مری انا ہے مجھے
تو پوچھتا ہے محبت کا مجھ سے ، جا ، نہیں کی

کومل جوئیہ

مزید شاعری