جو اپنی خواہشوں میں تو نے کچھ کمی کر لی
تو پھر یہ جان کہ تو نے پیمبری کر لی
۔
تجھے میں زندگی اپنی سمجھ رہا تھا مگر
ترے بغیر بسر میں نے زندگی کر لی
۔
پہنچ گیا ہوں میں منزل پہ گردش دوراں
ٹھہر بھی جا کہ بہت تو نے رہبری کر لی
۔
جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی
۔
جو سچی بات تھی وہ میں نے برملا کہہ دی
یوں اپنے دوستوں سے میں نے دشمنی کر لی
۔
مشینی عہد میں احساس زندگی بن کر
دکھی دلوں کے لیے میں نے شاعری کر لی
۔
غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی
عارف شفیق