Dil Say Tapka hi nahi Aankh main Tehra hi nahi
غزل
دل سے ٹپکا ہی نہیں آنکھ میں ٹھہرا ہی نہیں
کیسا آنسو تھا تیری یاد کا ٹپکا ہی نہیں
قیس تو بھی تو نہیں میں بھی نہیں ہوں لیلیٰ
وادیِ عشق میں آتے ہوئے سوچا ہی نہیں
کم نگاہی تھی یا پھر اس کا تغافل جس نے
اس طرح دیکھا مجھے جیسے کہ دیکھا ہی نہیں
قربتیں وقت کی دہلیز پہ دم دیتی رہیں
ابرِ احساس گرجتا رہا برسا ہی نہیں
اس جگہ میرا جنوں پہنچا جہاں پر سچ ہے
آج تک کوئی بھی انساں کبھی پہنچا ہی نہیں
میری بیٹی میں دھڑکتا ہے مری روح کا دل
ماسوا اس کے کبھی میں نے تو سوچا ہی نہیں
اس لیے ہوگی تنہا سرِ دنیا فہمی
اس نے بس پیار کیا پیار کو پرکھا ہی نہیں
فریدہ عالم فہمی
Fareeda Aalam Fehmi