اک شرار گرفتہ رنگ ہوں میں
پھول سے لے کے تا بہ سنگ ہوں میں
۔
باد صرصر کی طرح گرم عناں
سینۂ ریگ کی امنگ ہوں میں
۔
ذرہ ذرہ نے کر دیا حیراں
اور حیرانیوں پہ دنگ ہوں میں
۔
فتح بھی اک شکست ہی ہوگی
آرزوؤں سے محو جنگ ہوں میں
۔
کیسے تجھ کو بہا کے لے جاؤں
موج ہمسایۂ نہنگ ہوں میں
۔
شہر و صحرا کی کچھ نہیں تخصیص
وسعت دشت جاں سے تنگ ہوں میں
۔
کس نے دیکھا فشار موجۂ جاں
آج تک آب زیر سنگ ہوں میں
سحر انصاری