آئینے کے سوا ترا غم خوار کون ہے
اس کے علاوہ کوئی ہے تو یار کون ہے
دشمن تو اپنی چال کو چل کر چلا گیا
لیکن وہ دیکھ وہ پسِ دیوار کون ہے
یہ فیصلہ بھی اٹکا ہوا ہے ابھی تلک
اس زندگی سے برسرِ پیکار کون ہیں
لب پر گلوں کے دیکھی ہے پر کیف تازگی
گلشن میں محوِ سجدہ یہ پرخار کون ہے
جس کو بھی دیکھا وہ ہے مسیحا اے میرے دل
میں کیسے کہہ دوں وہ مرا بیمار کون ہے
رخصت کیا تھا اس کو سرِ شام سب نے جب
جو گیت گا رہا ہے وہ فنکار کون ہے
یہ جاننا تھا اس لیے ہم در بدر ہوئے
مطلب پرست کون وفادار کون ہے
رخسار پر جمی ہوئی یہ دھول دیکھ کر
ہر کوئی پوچھتا ہے یہ سرکار کون ہے
سب کھیل کھیلتے ہیں محبت کا ہاں مگر
اس کھیل میں بھی صاحبِ دستار کون ہے
میں گیت گاتی ہجر کے عالم میں کیوں شمیم
جب جانتی ہوں میرا طرف دار کون ہے
شمیم چودھری