بے تابیوں کو دل کی چھپا بھی نہیں سکے
جو دل کی بات تھی وہ بتا بھی نہیں سکے
دل اس طرح سے اترا ہے دریائے درد میں
ہم ڈوبنے سے اس کو بچا بھی نہیں سکے
رکھی تھیں جو تراش کے پھولوں کی ٹہنیاں
صحنِ چمن میں ان کو لگا بھی نہیں سکے
سانسیں اگلتی رہ گئیں شعلے تمام رات
اشکوں سے اپنے ان کو بجھا بھی نہیں سکے
دل مبتلا ہے کیوں مرا وہم و گمان میں
یہ بات کھل کے یار بتا بھی نہیں سکے
طوفاں نے سر اٹھایا تھا جو خواہشات کے
اس کو پھر اپنے دل میں دبا بھی نہیں سکے
بیٹھے ہوئے تھے گدھ جو محبت کی شاخ پر
ہم ان کو کیا کہیں کے اڑا بھی نہیں سکے
تھا سامنے نشانے پہ اندیشہِ شکست
ہم تیر اس پہ یار چلا بھی نہیں سکے
چاہت میں تیری ہم نے جلایا تھا جو چراغ
ہاتھوں سے وہ شمیم بجھا بھی نہیں سکے
شمیم چودھری