رنج و غم سے گزارتا ہے مجھے
لمحہ لمحہ وہ مارتا ہے مجھے
موندھ لیتا ہے اپنی آنکھوں کو
خواب میں پھر اتارتا ہے مجھے
دشتِ ہجراں کی گہری دلدل سے
کب وہ آ کر ابھارتا ہے مجھے
اس کی تحریر میں غزل تو نہیں
کس لیے پھر سنوارتا ہے مجھے
لوٹ آتی ہے اپنے مسکن پر
جس دعا میں بھی دھارتا ہے مجھے
میں جو زندہ ہوں اس کا مطلب ہے
کوئی ہے جو نتھارتا ہے مجھے
پاس میرے وہ کیوں نہیں آتا
دور سے کیوں پکارتا ہے مجھے
سچ کہوں تیرا غم ترا صدمہ
یارِ من اب نکھارتا ہے مجھے
ایسا لگنے لگا ہے اب تو شمیم
کوئی صحرا پکارتا ہے مجھے
شمیم چودھری