درد اوڑھا ہے غم کو لبادہ کیا
بے ارادہ کبھی بالارادہ کیا
دوستوں سے تو کیا دشمنوں سے بھی ہم
مسکرا کر ملے دل کشادہ کیا
راستے میں ہی مجھ سے جدا ہو گیا
جس کی خاطر سفر کا ارادہ کیا
اس نے اک بار پھر کر کے قول و قرار
بے قراری کا میری اعادہ کیا
پھول کی پتیوں نے لبوں سے ترے
نازکی کے لئے استفادہ کیا
زندگی کو ملی تب نویدِ سحر
شام تک جب سفر پا پیادہ کیا
آسمانوں پہ منزل ہے انسان کی
اور زمیں کو ہے پھر اس کا جادہ کیا
یوں تو مشکل طلب آپ بھی ہے سعید
اس پہ سب نے ستم بھی ذیادہ کیا
احمد سعید خان