loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 16:57

ہر برگِ امید جلایا جا سکتا ہے

ہر برگِ امید جلایا جا سکتا ہے
اور ملبے پر شہر بسایا جا سکتا یے

جتنا چاہیں, شور مچایا جا سکتا ہے
پیالی میں طوفان اٹھایا جا سکتا ہے

آنکھیں نوچ کے باہر پھینکی جا سکتی ہیں
خوابوں سے بھی ہاتھ چھڑایا جا سکتا ہے

دھندلی سی تصویر بنائی جا سکتی ہے
اور تصویر سے رنگ چرایا جا سکتا ہے

اک دن اس میں پھوٹے گی تعبیر کی کونپل
سو مٹی میں خواب دبایا جا سکتا ہے

ایک ہے دامن اور دو آنکھیں پاس ہیں میرے
ان سے کتنا رنج کمایا جا سکتا ہے

ہر دروازہ بند ملا ہے ہم کو جب بھی
ہم نے سوچا لوٹ کے آیا جا سکتا ہے

اور بھلا کیا دے پائیں گے دنیا والے
دیوانے کو خواب دکھایا جا سکتا ہے

رستوں کو تعویذ بنا کر دل میں رکھ لوں
شاید ایسے خود تک آیا جا سکتا ہے

جانے سورج کی انگڑائی کب ٹوٹے گی
جگنو سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے

سچ میں تو نے کھول کے رکھا ہے دروازہ
یعنی میں تیرے دل تک آیا جا سکتا ہے

شائستہ سحر

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم