جو تو نہیں ہے تو غم نہیں ہے، یہ کم نہیں ہے
ہماری آنکھوں میں نم نہیں ہے، یہ کم نہیں ہے
روایتِ مے کشی بدل دی نظر سے اُس نے
ہے قند ساغر میں سم نہیں ہے ،یہ کم نہیں ہے
کھلایا صحرا میں صورتِ گل جسے صبا نے
حضورِ گلچیں ،وہ خم نہیں ہے،یہ کم نہیں ہے
ہمیں بھی اس کے ستم کا شِکوہ نہیں ہے کوئی
اسے بھی زعمِ کرم نہیں ہے،یہ کم نہیں ہے
میں اپنی خلوت میں محوِ نظّارگی ہوں لوگو !!
اگر فراغِ بہَـم نہیں ہے ،یہ کم نہیں ہے
وفورِ شعر و سخن کی لہریں ڈبو ہی دیتیں
جو شوقِ ناز و نعم نہیں ہے،یہ کم نہیں ہے
یہاں ستائش ستم گری کی روا ہے لیکن
کسی کو دادِ کرم نہیں ہے. یہ کم نہیں ہے ؟
سکوتِ شب کی دہائیاں تم گوارا کر لو
یہ شورِ شامِ الم نہیں ہے،یہ کم نہیں ہے
( شــائستــہ سَــحَــرؔ )