گرمیء التفات کاٹی ہے
جیتے مرتے حیات کاٹی ہے
جاں بہ لب ہی رہے لبِ دریا
زیست مثلِ فرات کاٹی ہے
جس نے بوئے قدم قدم پہ اشک
اس نے راہ_ نجات کاٹی ہے
اس نےپھررکھدیا ہےہاتھ پہ ہاتھ
اس نے پھر میری بات کاٹی ہے
لوگ آنکھوں میں رات کاٹتے ہیں
میں نے دانتوں سے رات کاٹی ہے
تب سمجھ پائے زندگی کو امین
خود سے جب اپنی ذات کاٹی
امین اڈیرائی