یوں نہ گھیراؤ اور جلاؤ پر
آنکھ رکھو زمیں کے گھاؤ پر
اک نظر رختِ جاں پہ ہے میری
اک نظر وقت کے بہاٶ پر
کتنا انمول تھا ضمیر کہ اب
آ گیا کوڑیوں کے بھاؤ پر
اس نے آنکھوں میں آگ سُلگائی
ہم نے دل رکھ دیا الاؤ پر
کھیل سمجھا تھا عشق کو لیکن
زندگی لگ گئی ہے داؤ پر
خواب سر سے اتار پھینکے ہیں
بوجھ بڑھنے لگا تھا ناٶ پر
بات نکلی تھی حُسنِ ظن کی امین
آن ٹھہری وہ رکھ رکھاٶ پر
امین اڈیرائی