ہوائیں تیز ‘ صحرا ہے مسلسل خوف کی زد میں
چراغِ راہ جلتا ہے مسلسل خوف کی زد میں
اندھیری رات ، سایہ ہے مسلسل خوف کی زد میں
وہ مُڑ مُڑ پیچھے تکتا ہے مسلسل خوف کی زد میں
سفر کرنے لگی ہوں کاغذوں کی کشتیاں لے کر
کہ دل اس وقت میرا ہے مسلسل خوف کی زد میں
نظر آتا بھی کیسے بُور کچھ پھل دار پودوں پر
ہر اک پودے کو دیکھا ہے مسلسل خوف کی زد میں
فقط غیروں کے بچے ہی نہیں سہمے ہوئے اب تو
میرا اپنا بھی بچہ ہے مسلسل خوف کی زد میں
ٹریفک ایک لمحے کو بھی تو رکتی نہیں دیکھو
سڑک کے پار اندھا ہے مسلسل خوف کی زد میں
رجب چودھری