درد کو ایک صدا ہونے تک دیکھا ہے
ہر منظر دھندلا ہونے تک دیکھا ہے
آنکھیں پانی کے پہلو میں رکھی ہیں
پھر ان کو صحرا ہونے تک دیکھا ہے
تشنہ ہونٹوں پر شبنم کی ایک ہی بوند
بوند کو پھر دریا ہونے تک دیکھا ہے
خشک ہوائیں کھیل رہی پلکوں سے
خوابوں کا سودا ہونے تک دیکھا ہے
شہر کی رونق جانے کب تک لوٹے گی
لمحوں کو عرصہ ہونے تک دیکھا ہے
وقت خراشیں چھوڑ گیا دل پر فرحت
سوکھا پیڑ ہرا ہونے تک دیکھا ہے
آئرین فرحت