ہر دردِ لادوا کی دوا ہے علی علی
اس دل کی دھڑکنوں کی صدا ہے علی علی
میں نے لیا جو نامِ علی اعتراض کیوں
میرے نبی کے لب پہ رہا ہے علی علی
اس کو منافقت کی سند پیش کیجیے
مومن نہیں جو سن کے خفا ہے علی علی
حق ہے علی کے ساتھ علی حق کے ساتھ ہے
اور بالیقین حق کی نوا ہے علی علی
بدر و اُحد بھی خیبر و خندق بھی ہیں گواہ
مشکل پڑی تو کہنا پڑا ہے علی علی
یوں تو لگائے جاتے ہیں نعرے کئی مگر
دل جانتا ہے سب سے جدا ہے علی علی
ہر لمحۂ حیات مِرا ہے علی کے نام
ہر قطرۂ لہو پہ لکھا ہے علی علی
نہ ڈر ہے موت کا نہ کوئی فکرِ زندگی
وردِ زبان جب سے صباؔ ہے علی علی
صبا عالم شاہ