loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 16:43

جسم ناقص تھا سو انجام فنا ہی آیا

جسم ناقص تھا سو انجام فنا ہی آیا
روح کامل تھی تو انعام بقا ہی آیا

لوحِ دل پہ لکھی تحریر حقیقت نکلی
زیست کا آخری پیغام قضا ہی آیا

ظرفِ احباب رہا صرف تماشہ بینی
کام آیا ہے کوئی گر تو خدا ہی آیا

مجھ سے ابلیس کو شکوہ ہی رہا ساری عمر
جب بھی آیا وہ مرے پاس خفا ہی آیا

وار کرتی ہوں زبانیں جہاں مثلِ خنجر
میرے ہونٹوں پہ فقط حرفِ دعا ہی آیا

میں نے ان کو بھی دعاؤں میں رکھا ہے شامل
جن کی باتوں میں مرا ذکر برا ہی ایا

دردِ دل حد سے گزر جائے گا معلوم نہ تھا
ایک اندازہ تھا پر اُس سے سِوا ہی آیا

انتہا عشق کی پوچھی ہے کسی نے جب بھی
یاد ایثارِ شہِ کرب و بلا ہی آیا

ہے یہ تاثیرِ سخن عشقِ محمد کے طفیل
شاعری کا مری انداز جدا ہی آیا

جب سے پایا ہے صبا ؔ عشقِ حقیقی میں نے
راہِ پرخار پہ چلنے میں مزا ہی آیا

صبا عالم شاہ

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم