جب سے جانا ہے کہ دنیا میں وفا کوئی نہیں
پھر کسی سے بھی رہا ہم کو گِلہ کوئی نہیں
ہر طرف جھوٹ ہے، دھوکا ہے، بے ایمانی ہے
اور اخلاص و محبت کا صلہ کوئی نہیں
ہر زباں پر گلے شکوے تو بہت ہیں لیکن
حرفِ تحسین نہیں لفظِ دعا کوئی نہیں
اجنبی ہوگئے وہ لوگ جو اپنے تھے کبھی
ہم سے ازراہِ مروت بھی ملا کوئی نہیں
میری خوشیوں میں مرے ساتھ زمانہ تھا مگر
مشکلیں آئیں تو پھر ساتھ چلا کوئی نہیں
حق پرستی کے بہت دعوے کئے سب نے مگر
راستہ چھوڑ کے باطل کا گیا کوئی نہیں
سنتے ہیں پہلے زمانے میں برے لوگ تھے کم
اب تو لگتا ہے کہ دنیا میں بھلا کوئی نہیں
زندگی بیت گئی ساری مگر اپنے لیے
ہم کو لمحہ کبھی فرصت کا ملا کوئی نہیں
عشق کے دشت سے گزرے تو یہ معلوم ہوا
راہ پرخار نہیں ہے تو مزا کوئی نہیں
جن کا دعویٰ تھا مرے بن نہیں جی پائیں گے
سارے زندہ ہیں ابھی تک تو مرا کوئی نہیں
مضطرب دل ہے اگر تیرا تو سوچا ہے کبھی
کیسے پائے گا سکوں اس میں خدا کوئی نہیں
جب محبت نہیں دنیا سے تو شکوہ کیسا
تیرے دل میں تو لگن اس کی صبا ؔ کوئی نہیں
صبا عالم شاہ