نشے میں جھومتا گاتا ہوں ٹوٹ جاتا ہوں
تمہارا ہجر مناتا ہوں ٹوٹ جاتا ہوں
یہ کیسی مٹی سے آخر مجھے بنایا گیا
کسی سے ہاتھ ملاتا ہوں ٹوٹ جاتا ہوں
کبھی تو لگتا ہے جیسے میں ایک پتھر ہوں
پھر اتنا شور مچاتا ہوں ٹوٹ جاتا ہوں
انا پرست ہوں اتنا کہ اپنے ہاتھ کے بھی
ہتھیلی سامنے لاتا ہوں ٹوٹ جاتا ہوں
نجانے کون سی منزل کا میں مسافر ہوں
کسی بھی راہ سے جاتا ہوں ٹوٹ جاتا ہوں
میں اس کی آنکھ میں رہتا ہوں خواب کی صورت
طلوع, صبح تک آتا ہوں ٹوٹ جاتا ہوں
کسی طرح سے میں خود کو بنا تو لیتا ہوں
پھر ایک عکس بناتا ہوں ٹوٹ جاتا ہوں
شاہ دل شمس