کب کہا میں نے کہ سورج کو اتارا جائے
بس اندھیرا یہ، مرے گھر سے خدارا جائے
چھین کر راحتیں اور کرب کا عالم دے کر
ہائے! دنیا سے مجھے یوں نہ گزارا جائے
اس لیے لکھے نصیحت کی طرح وصل و فراق
جان سے اب نہ کہیں کوئی بےچارہ جائے
کرچکے ہو جہاں برباد تو آؤ پھر سے
شوقِ فردا کے لیے اس کو سنوارا جائے
بات تو تب ہے، کہ نسبت بھی ملے ، الفت میں
نام لے لے کے ترا، مجھ کو پکارا جائے
کون جیتا ہے یہاں! زیست کی بازی اب تک
بس کہ اس کھیل کو ، اب کھیل کے ہارا جائے
وہ تو دستار گرا آئے تھے جاں بخشی کو
ڈر ہے کاشفؔ کہ کہیں سر نہ تمہارا جائے
کاشف علی ہاشمی