خون میں اس قدر فشار رہا
جب تلک سر پہ وہ سوار رہا
کوئی چپکے سے آ گیا دل میں
ہم کو دستک کا انتظار رہا
چاندنی چار دن کی ہوتی ہے
کس پہ جوبن سدا بہار رہا
کتنے دن اس کی بے نیازی سے
ایک سو تین پر بخار رہا حاصل
اس کو بھی تمغہ ءِ شجاعت دو
زندگی ہنس کے جو گزار رہا
جانے والا چلا گیا لیکن
دیر تک ہجر کا غبار رہا
ایک بچپن کا عشق تھا فوزی
جس کا پچپن برس خمار رہا
فوزیہ شیخ