آنکھوں کو اگر دل کا اشارہ نہیں ہوتا
تو . سامنے رہ کر بھی ہمارا نہیں ہوتا
آنچل کا تقدس بھی تو کرسکتا ہے پامال
بڑھتا ہوا ہر ہاتھ سہارا نہیں ہوتا
ہر شخص کو پلکوں پہ جگہ دی نہیں جاتی
ہر شخص ہمیں جان سے پیارا نہیں ہوتا
اب بھی وہ سکوں دل کا تو آنکھوں کی بصارت
بن دیکھے اسے اب بھی گزارا نہیں ہوتا
بے وجہ اداسی کو مسلط نہ کرو تم
اس گہرے سمندر کا کنارہ نہیں ہوتا
خود دار بھی ہوتے ہیں کئی اہل وفا میں
سب نے ہی تو دامن کو پسارا نہیں ہوتا
اپنوں کے رویوں سے بھی تھک جاتا ہے انسان
خاموش جو ہوتا ہے وہ ہارا نہیں ہوتا
ممکن ہے تری آنکھ کا دھوکہ ہو یہ فوزی
ہر چیز جو روشن ہو ، ستارہ نہیں ہوتا
فوزیہ شیخ