صحنِ دل چمکنے کی صورتیں نہیں ملتیں
چاند چاند قدموں کی آہٹیں نہیں ملتیں
دل تو روز کہتا ہے، آسماں کی سیر کروں
پر زمین والوں سے مہلتیں نہیں ملتیں
زندگی کے دریا میں ہر نفس تلاطم ہے
سوچ کے سفینے کو منزلیں نہیں ملتیں
شہرِ کم بصیرت میں سنگ بکتے رہتے ہیں
فکر وفن کے جوہر کی قیمتیں نہیں ملتیں
زندگی کے میلے میں بھیڑ تو ہے رشتوں کی
نفرتیں تو ملتی ہیں ،چاہتیں نہیں ملتیں
ہم دیئے جلاتے ہیں، شب زدہ فیصلوں پر
کیا کریں ہواؤں سے خصلتیں نہیں ملتیں
نفرتوں کا جمگھٹ ہے، ہر طرف زمانے میں
اب قمر محبت کی محفلیں نہیں ملتیں
قمرسرور