نہ جانے کیسے مٹے گی یہ آپسی رنجش
ہمارے گھر جو چلی آئی باہری رنجش
ہزاروں سائے تو اک پیڑ کے نہیں ہوتے
مری تو فہم سے باہر ہے مسلکی رنجش
سبھی کی ایک ہی منزل ہے آؤ ملکے چلیں
فنا نصیبو ! کہاں تک یہ باہمی رنجش!
نہیں ہے بندہ و معبود میں کوئی دوری
اگر نہ بیچ میں حائل ہو دشمنی،رنجش
وہ جنکو حکم تھا رسّی کو تھام کر رکھنا
انھیں کے بیچ پنپتی ہے لازمی رنجش
سکوتِ شب میں یہ کتبوں کے ٹوٹنے کی صدا
تہِ زمیں تو نہیں ہے یہ دنیوی رنجش !!
حجابِ چشم ہٹے گا تو سب عیاں ہوگا
ضرر رساں تھی کہ تھی کتنی قیمتی رنجش
ثمر یہ سوچ کے حیرت میں ڈوب جاتا ہوں
مسافرانِ فنا میں ہے دائمی رنجش
ثمر خانہ بدوش