خزاں کی رت ہے، کھلا ہے، گلاب سمجھا کر
یونہی نہیں ہے ترا انتخاب سمجھا کر
کلی سے غنچوں سے تجھکو میں کیسے دوں تشبیہ!
کہ تیرا کوئی نہیں ہے جواب سمجھاکر
تو اپنی ذات پہ مرضی سے خرچ کر مجھکو
کہ تجھ پہ کوئی نہیں ہے حساب سمجھاکر
جدھر بھی جاتا ہے سایہ فگن ہی رہتے ہیں
یہ میری چاہ کے تجھ پر سحاب سمجھا کر
سہولتوں سے بھلا عشق کب میسر ہے!
بڑے اٹھائے ہیں میں نے عذاب سمجھاکر
ادائے ناز پہ کیوں کر نہ مرمٹے یہ دل!
کہ تو ہے ایک مہکتا گلاب سمجھا کر
کسی کے پیار کی، جذبوں کی لاج رکھ لینا
رہِ وفا میں ہے کارِ ثواب سمجھا کر
کہ اب تو میں بھی محبت کے ہوگیا قابل
کہ اب تو تجھکو بھی آتے ہیں خواب سمجھا کر
کہ اب تو تیری جوانی کا بن گئے زیور
ادا و غمزہ و ناز و شباب سمجھا کر
بس ایک تجھ سے محبت یہ کیاہوئی مجھکو
میں سہہ رہا ہوں سبھی کے عتاب سمجھا کر!!
ابھی تو رات ہے باقی، چراغ روشن ہیں
لبوں سے اور پلا دے شراب، سمجھاکر
ثمر سے پوچھو کہ خوابوں میں رات بھر یونہی
یہ کس کو کہتا ہے عالی جناب! سمجھا کر
ثمر خانہ بدوش