بات بے بات جو ہستی کا تماشا کر دے
کِس کَرَم کا ہے وہ ساتھی جو اکیلا کر دے
تشنہ کاموں کی تُو فریاد سُنے گا مولا
تُو اگر چاہے تو صحرا کو بھی دریا کر دے
چند اِک کام ادھورے ہیں جِنہیں کرنا ہے
اِس لئے عُمر میں میری تُو اضافہ کر دے
تیرے ہوتے ہُوئے مَولا کوئی کیوں ہو مجبُور
بے سہارے کا بھی پیدا تُو سہارا کر دے
ہاتھ اُٹھتے ہیں دُعا کے لئے میرے مَولا
جو مِرا تھا ہی نہیں اُس کو تُو میرا کر دے
مُجھ کو کر دے تُو مُقدّر کا سکندر یارب
ظُلمتِ شب بڑی گہری ہے اُجالا کر دے
اپنے رب سے یہ دُعا ہے مِری “شہناز” کہ وہ
میرے دُشمن کو بھی حق میں مِرے اچھا کر دے
شہناز رضوی