محبتوں میں شناسائیوں کے موسم دے
مرے خدا مجھے رعنائیوں کے موسم دے
کلی جو پھول ہوا چاہتی ہے گلشن میں
مرے خدا اسے انگنائیوں کے موسم دے
وصال اس کا مجھے راس آ نہیں سکتا
مجھے ہمیشہ وہ تنہائیوں کے موسم دے
مرے وجود سے لپٹی تری خیال کی آنچ
مرے خیال کو انگڑائیوں کے موسم دے
میں اس کے نام کی حرمت میں جاں بہ لب خاموش
وہ میرے نام کو رسوائیوں کے موسم دے
دیارِ عشق میں تنہا غریب بیٹھا ہوں
مجھے بھی انجمن آرائیوں کے موسم دے
ترے خیال کی خوشبو ترے جمال کا رنگ
دل و نظر کو جو شہنائیوں کے موسم دے
نصیب فکرِ رسا کو ہو اور توانائی
مرے خدا مجھے دانائیوں کے موسم دے
میں کم نگاہوں کی بستی میں آ گیا ہوں نظر
مرے خدا انہیں بینائیوں کے موسم دے
نظر فاظمی