سب سے حساب اپنا چکا کر گیا وہ شخص
قرضے میں اپنے خود کو ادا کر گیا وہ شخص
تشنہ رتوں میں سوچ کے خیمے میں آگیا
شعروں کی چاندنی میں نہا کر گیا وہ شخص
محصور اس طرح کیا افکار میں مجھے
پھولوں کا ایک جال بچھا کر گیا وہ شخص
بزمِ سخن میں قوسِ قزح بن کے چھا گیا
محفل میں آکے حشر بپا کر گیا وہ شخص
مجھ کو محبتوں کا سلیقہ سکھا گیا
میرا وجود حرفِ وفا کر گیا وہ شخص
جب تک رہا وہ بزم میں ہنستا رہا مرادؔ
لیکن گیا تو سب کو رُلا کر گیا وہ شخص
شفیق مراد