میں آنکھوں سے در و دیوار پر منظر بناتی ہوں
کبھی پاوں۔کبھی صحرا کبھی اک گھر بناتی ہوں
بنانا خوش بہت آتا ھے مجھ کو ہجر لمحوں کا
کبھی تو بھول جاتی ہوں کبھی اکثر بناتی ہوں
چٹخ جائے نہ آنکھوں کی تپش سے خواب کی دنیا۔
میں چشم۔نم کے سائے میں ترا پیکر بناتی ہوں
دھنک رنگوں سے پھر آراستہ کر کے ترا پیکر
کبھی آنکھوں کبھی دل کی جگہ پتھر بناتی ہوں
میں اپنے درد کا درماں کیا کرتی ہوں یوں اکثر
بنا کے سنگ۔در اپنا کسی کا سر بناتی ہوں
بڑھا دیتا ھے قامت روز وہ دیوار۔زنداں کی
میں کشف۔زات سے جب بھی کہیں اک در بناتی ہوں
نبھاتی ہوں میں اس انداز سے رسم۔زباں بندی
بناتی ہوں قفس کاغذ پہ پھر کچھ پر بناتی ہوں
کسی پر کیوں کھلے روداد۔درد۔دل حجاب اپنی
سو ہونٹوں پر ہنسی کے ساتھ چشمِ تر بناتی ہوں
حجاب عباسی