لاکھ جذبات کو چاہا بھی ، دبایا نہ گیا
دل کی بے چین امنگوں کو سلایا نہ گیا
اتنا گلشن میں بہاروں نے اٹھایا محشر
پھول کیا خار کو بھی ہاتھ لگایا نہ گیا
رت جگے کرنے کی عادت سی پڑی ہے جب سے
خواب پھر کوئی بھی آنکھوں میں سجایا نہ گیا
اس قدر چھلنی کیا دنیا نے خوابوں کا بدن
بوجھ ان کا مری پلکوں سے اٹھایا نہ گیا
اس لیے درد کو تحریر کیا ہے میں نے
مجھ سے یہ لمسِ وفا دل میں بسایا نہ گیا
کیسے میں دیکھتی رستوں کو تمہارے تنہا
ساتھ مشکل میں ذرا تم سے نبھایا نہ گیا
ایک اک کرکے سبھی رشتے نظر سے اترے
پھر کسی سے بھی ارم ہاتھ ملایا نہ گیا
ارم ایوب