غزل
عہدِ فراق ہے نہ یہ عہدِ وصال ہے
کیسا عجب تضادِ عروج و زوال ہے
آیا جو اس کا دھیان تو سر کو جھٹک لیا
یہ سوچ کر کہ یہ تو پرانا خیال ہے
کستا نہیں ہے کوئی بھی آوازہ ان دنوں
محسوس ہو رہا ہے کہ دنیا نڈھال ہے
سوچا تھا تم سے کم ہی مراسم رکھیں گے ہم
لیکن یہ کام سب سے زیادہ محال ہے
اک تم ہو جس سے کوئی شکایت نہیں مجھے
تم بھی شریکِ حال نہیں ہو کمال ہے
ہوتا ہے کس سے اپنا تصادم خبر نہیں
جو واردات ہے پسِ خواب و خیال ہے
ہوتی ہیں پوری خواہشیں تسکین کے بغیر
جو کچھ بھی ہو رہا ہے کہانی مثال ہے
ہم چاہتے ہیں خود کو توانا رکھیں سدا
مقصد ہمارا صرف تری دیکھ بھال ہے
محسن جواب کون دے میرے سوال کا
ہر آدمی ہی اپنی جگہ اک سوال ہے
محسن اسرار