سبھی امیروں کے تاج خطرے میں آ گئے تھے
کچھ ایسے سکے ہمارے کاسے میں آ گئے تھے
ہمیں بھی فاقہ کشی نے کافر بنا دیا ہے
خیال روٹی کے آج سجدے میں آ گئے تھے
تمہارے آنگن کی تتلیاں تھیں ہمارے گھر میں
ہمارے جگنو تمہارے کمرے میں آ گئے تھے
گیا جو مندر تو پھر نہ مسجد کی چھت پہ بیٹھا
مزاج لوگوں کے اک پرندے میں آ گئے تھے
کسی بھی گوشے میں چاہتوں کی تپش نہیں تھی
وہ تیرا دل تھا یا سرد خانے میں آ گئے تھے
میں آدھا پڑھ کر وفا کے قصے کو چھوڑ آیا
تمہاری بستی کے لوگ قصے میں آ گئے تھے
بچھڑتے لمحے جو اشک ہاتھوں پہ آ گرا تھا
تمام دریا اُس ایک قطرے میں آ گئے تھے
اِسے محبت کی پائمالی نہیں کہو گے!؟
رضا وہ ملنے کسی کے صدقے میں آ گئے تھے
محمد رضا حیدری