ایروں غیروں سے میں نے سنا ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کر لیجئیے ۔۔۔
آپ کو مجھ سے شکوہ گلہ ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کر لیجئیے
یہ زمیں مجھ سے بھرنا ہے بھر دیجئے جیتے جی دفن کرنا ہے کردیجیئے۔۔۔
مہرباں مجھ پہ میرا خدا ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کر لیجئیے
ہر غمی اور خوشی میں رہے ساتھ تھے پم بھی روئے کبھی اور ہنسے ساتھ تھے۔۔۔
آپ نے مجھ کو تنہا کیا ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کر لیجئیے
پیٹھ پیچھے نہ باتیں کیا کیجئے چاک دامن کے گھر میں سیا کیجئے۔۔۔
آپ اٹھ کر گئے وہ ہنسا ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کر لیجئیے
وہ جو اپنے بزرگوں سے سنتے رہے وہ بڑے میرے مجھ سے بھی کہتے رہے
آنے والا زمانہ برا ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کر لیجئیے
آپ نے کہہ دیا جب انا مجھ میں ہے میں نے بھی کہہ دیا ہاں انا مجھ میں ہے۔۔۔
آپ کو میرا کہنا کھلا ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کر لیجئے
میری جنت سے باہر نکالا مجھے یوں بناکر ہتھیلی کا چھالامجھے۔۔۔
آپ کا بھی اگر دل جلا ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کرلیجیے
چڑھتے سورج کو دیکھا جدھر آپ نےمڑ کے دیکھا کہاں پھر اِدھر آپ نے۔۔۔
رات ہے اور مخالف ہوا ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کر لیجئیے
آئینوں سے بھی لوگ اب گریزاں ہوئے راہ چلتوں سےدست و گریباں ہوئے۔۔۔
کیا کہیں اس میں کس کی خطا ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کرلیجئیے
گرچہ غالب کا طرزِ بیاں اور ہے ذوق کا یہ سخن قابلِ غور ہے۔۔۔
سب سے لہجہ جدا میر کا ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کرلیجئے
کون کہتا ہے مردہ کہانی ہوں میں اپنے پرکھوں کی زندہ نشانی ہوں میں۔۔۔
آپ نے نام میرا سنا ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کرلیجئے
سب زبانوں میں شیریں بیاں ہے یہی میری ہماں کی بھی اپنی زباں ہے یہی۔۔۔
شیرِ مادر بھی میں نے پیا ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کرلیجئے
میں جو اردو ہوں سپنوں کی رانی بھی ہوں، اپنے خسرو کی پاگل دِوانی بھی ہوں۔۔۔
قند لہجے میں میرے گھلا ہے بہت آئیے بیٹھ کر بات کرلیجئے۔
(فیروز ناطق خسرو)