تمہارےآنے کے سارے رستے جو آؤ روشن کیے ہوئے ہوں
قیام کا جو کرو ارادہ پڑاؤ روشن کیے ہوئے ہوں
بھنور بھی لپٹے ہوں دست و پا سے ہزار طوفاں بھی سر اُٹھائیں
میں اُس کی جانب ندی کے سارے بہاؤ روشن کیے ہوئے ہوں
مرا خدا میرا ناخدا ہے یہ سوچ لے تند و تیز دریا
جو بیچ دریا میں اک شکستہ سی ناؤ روشن کیے ہوئے ہوں
سُنا ہے زخموں کے گھاٶ بھرتا ہے اپنے مرہم سے وقتِ رفتہ
سو میں بھی اپنے جگر کے سارے ہی گھاؤ روشن کیے ہوئے ہوں
کسی کے لہجے کی سرد مہری نہ مجھ کو مغموم کرسکے گی
میں اپنے اندر گئی رُتوں کا الاؤ روشن کیے ہوئے ہوں
ابھی بھی ماضی کی تلخ یادوں کا دل میں لاوا اُبل رہا ہے
نجانے کب سے میں اس توے کا یہ تاؤ روشن کیے ہوئے ہوں
وفا کے بازار میں بظاہر میں ہوں خسارے کا کاروباری
مگر وفاؤں کا پھر بھی خسروؔ میں بھاؤ روشن کیے ہوئے ہوں
(فیروز ناطق خسروؔ)