یہاں بن موسموں کی بارشوں کا سلسلہ ہے
نمو کی منتظر کچھ کونپلوں کا سلسلہ ہے
فلک سے جو بھی اتر ے کیا گلہ اُس کا کہ یوں بھی
زمیں پر سانس لیتی خواہشوں کا سلسلہ ہے
جنونِ عشق کے رستے میں ہے اک ایسا دریا
جہاں پر تیرتے ٹوٹے گھڑوں کا سلسلہ ہے
یہ ہجرت راس آتی ہے پرندوں کو جبھی تو
بہت ہی دور تک ان ٹولیوں کا سلسلہ ہے
شکستہ خواب اپنے ایک جانب رکھ دیے اب
مجھے درپیش ان ویرا نیوں کا سلسلہ ہے
مرے کمرے میں بھی ہے رتجگوں کا رقص اور کچھ
مرے دل میں بھی پھیلی وحشتوں کا سلسلہ ہے
کہیں پر تیرگی پھیلی ہوئی ہے آسماں تک
کہیں پر روشنی کے دائروں کا سلسلہ ہے
محبت کا یقیں جب سے ہواؤں نے دلایا
گلابی گنگناتی خوشبوؤں کا سلسلہ ہے
ڈاکٹر حنا امبرین طارق