ہر گھڑی خود سے الجھنا ہے مقدر میرا
میں ہی کشتی ہوں مجھی میں ہے سمندر میرا
کس سے پوچھوں کہ کہاں گم ہوں برسوں سے
ہر جگہ ڈھونڈتا پھرتا ہے مجھے گھر میرا
ایک سے ہو گئے موسموں کے چہرے سارے
میری آنکھوں سے کہیں کھو گیا منظر میرا
مدتیں بیت گئیں خواب سہانا دیکھے
جاگتا رہتا ہے ہر نیند میں بستر میرا
آئینہ دیکھ کے نکلا تھا میں گھر سے باہر
آج تک ہاتھ میں محفوظ ہے پتھر میرا
ندا فاضلی