اک درد دل میں عشق کا یوں عمر بھر رہا
بدنام اس جہاں میں مرا چارہ گر رہا
لے کر چلا ہے وہ مجھے دنیا سے دور اب
اک انتظارِ وصل جو شام و سحر رہا
ظلمات بھی جفا کی نہ بھٹکا سکی مجھے
روشن تمہاری یاد سے داغِ جگر رہا
کوئی نہ ساتھ دے سکا شامِ فراق میں
بس درد میری ذات میں محوِ سفر رہا
پامال کر دیا تھا چمن آندھیوں نے جو
صحرا سمجھ کے اس میں کوئی عمر بھر رہا
زخموں میں بھر گیا وہ ترے نام کا نمک
کہنے کو نام اس کا مگر چارہ گر رہا
جاں تو گئی ہے دار پہ حق کے لئے مگر
پہنچا ہے اوج پر، وہ جو بے بال و پر رہا
مدت کے بعد در پہ ہے دستک کوئی نسیم
ہاتھوں کو چوم لونگی اگر نامہ بر رہا
نسیم بیگم نسیم