جائے نہ کبھی چھوڑ کے ایسا ہے دسمبر
کیوں اپنی وفاؤں پہ نہ اِترائے دسمبر
گو آخری ہے ماہ ، یہ ہر سال کا لیکن
ہر سال مگر خود کو ہی دہرائے دسمبر
ٹھٹھرے جو ہواؤں سے ، ترا جسم دعا ہے
گرمی تری سانسوں میں دیئے جائے دسمبر
جس ماہ میں چھا جائے اداسی کا سمندر
عشاق کی نظروں میں وہ کہلائے دسمبر
آئے جو نیا سال تو کہہ دے گی یہ سلمٰی
سردی کے سوا غم نہ کوئی لائے دسمبر
سلمٰی رضا سلمٰی