ثمر خانہ بدوش سہارنپور ہندوستان
بازار ٹھنڈا پڑا تھا— بازار ٹھنڈا کیوں نہ پڑتا! جب پورا دیس ہی مندی کی مار جھیل رہا ہے_gdp آنکڑوں میں پانچ لیکن حقیقت میں تین ہی فیصد بچی ہے_ آئے دن آٹو سیکٹر گھاٹے کی طرف تیز رفتاری سے بڑھ ہے ہیں.کئی ہزار کرمچاری کمپنیوں سے نکالے جاچکے ہیں، یہاں تک کہ اتر پردیش سرکار نے اپنے پچیس ہزار ہومگارڈس کے ہاتھوں میں بھیک کا کٹورا تھما دیا ہے۔۔۔بڑے صنعتکار اور تاجر عوام کا پیسہ لیکر فرار۔۔۔
دھرتی پتر _کسان_ قرض کے بوجھ کی وجہ سے خودکشی پر مجبور۔۔۔
پہلے نوٹ بندی پھر جی ایس ٹی جیسے حکومت کے تغلقی فرامین نے دیس کو کئی دہائیوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ غرض یہ کہ ہر انسان اس مندی سے متاثر نظر آتا ہے —
جاوید اور شکیل دونوں ایک کپڑے کے شو روم پر نوکری کرتے ہیں۔ مندی کی وجہ سیزن کے ہوتے ہوئے بھی بازار میں گراہک عید کا چاند بنا ہوا ہے۔ کئی کئی روز میں ایک آدھ گراہک شوروم پر دستک دیتا ہے۔۔۔اسی سے مساومت نہیں ہوپاتی۔۔۔شوروم مالک نے کئی بار دونوں کو کہہ بھی دیا ہے کہ آپ کوئی دوسرا کام تلاش کرلیں کیونکہ یہاں تو اپنا ہی پیٹ پالنا مشکل ہوگیا ہے۔۔۔۔تمہاری پگار کا کہاں سے انتظام کیا جائے گا!
ہاں! جب کبھی کام چلے گا۔۔۔بازار میں رونق لوٹےگی۔۔۔تو میں آپکو بلا لوں گا-دونوں کی طرف سے جواب آتا ہے۔”صاحب ہم یہیں رہیں گے۔ جب تک مندی ہے آپ سے پگار کا مطالبہ نہیں کیاجائے گا___اور صاحب جائیں بھی کہاں! سب طرف یہی صورت حال ہے. "
جاوید او شکیل دونوں ہی مشاعرے کے شوقین ہیں۔اپنے اطراف میں بیس کلومیٹر تک ہر مشاعرے میں شریک ہوتے ہیں-
ایک روز مالک کہیں گیا ہوا تھا تو شکیل نے جاوید سے کہا: جاوید بھائی اپنے موبائلوا میں کونو مسیروئے(مشاعرہ) لگاو-
سنا جائے، خالی بیٹھ کے کونو فائدہ نا ہے!
جاوید نے راحت اندوری کی غزل موبائل میں چالو کردی.شکیل بڑے انہماک سے سن رہا تھا، تبھی باہر سے ایک اناؤنسمنٹ کی آواز سنائی دی_جو ابھی مدھم تھی_
شکیل نے جاوید سے کہا:جاوید بھائی تنی باہرواں دیکھ تو یہ کیسا الان ہو تھیں!(باہر دیکھو کیسا اعلان ہورہا ہے)
جاوید فورا شوروم سے باہر آیا اور دیکھا کہ ایک گاڑی ہے جو اناؤسمنٹ کر رہی ہے.
جاوید اور قریب ہواتو پتہ چلا یہ اعلان مانی کلاں کے مشاعرے کا ہے-جاوید نے گاڑی سے پوسٹر لیا اور شوروم میں آگیا.
ادھر شکیل ایک شاعرہ کی غزل سن رہا تھا اور جھوم رہا تھا ،،
ارے کتنی اچھی آواز ہے ایک دم دلا(دل) میں گھس جا تھئے ، رواں رواں کھڑا ہے! کا جادو ہے. سالا حسنوا بھی کسی کسی ملت ہے! اور اوپر سے لہجہ!!
میں تو دیوانہ ہو گوا.

جاوید اسے بغور دیکھ رہا ہے_____ادھر شکیل اس سرور سے ابھی باہر ہی نکلنا نہیں چاہتا
جاوید اس کے سامنے پوسٹر لہرا تا ہے اور کہتا ہے:
"اے شکیلوا—!ای دیکھ کا ہے—؟!
شکیل ایک دم چوک پڑتا ہے۔گویا کہ وہ کسی لاشعوری دنیا میں کھویا ہوا تھا.
"کا ہے جاوید—؟” شکیل پوچھتا ہے.”ای کیسا پوسٹروا ہے—؟ "
جاوید کوئی جواب نہیں دیتا___ صرف اتنا کہہ دیتا ہے ارے تیں ابہن گجل (غزل) سن لے تب بتیبئے.
شکیل کہتا :”ارے بھائی تیں موکا (مجھکو) بتیبےکا ہے؟ ئی کون چیج ہے اہمن؟ "
جب جاوید کوئی راستہ نہیں دیتا تو شکیل یوٹیوب آف کر کے اپنی جگہ سے کھڑا ہوتا ہے اور جاوید کے ہاتھ سے اشتہار لیکر دیکھتا ہے تو خوشی میں اچھل پڑتا ہے.
ارے یہ تو مسایرہ (مشاعرہ) کے پوسٹر ہے!
"تو اور کا—!؟” جاوید نے کہا:شکیل کی نظروں نے سب سے پہلے کنوینر کو تلاشا، اور کہا "ارے واہ یہ تو منا سردار کا مسایرہ ہے! ئی تو باہوت بڑا مسایرہ ہے! مناسردار تو ہمیشہ اچھا مسایرہ کراواتھیں۔ "
جاوید خاموش رہا __شکیل بولا:
"ارے کیوں چپ ہوگئے ہو—؟!تمہیں کیا ہوا؟ ایک دم اداس ہوگئے—جاوید نے کہا:”یار کا بتائیں، منا سردار کے مسایروا میں 100 سیٹ تو بےآئی پی( vip) ہوتی ہیں اور پیچھے بیٹھ کے دیکھئے میں مجا نا آئے. "
"ابے ٹینشن تیں مت لے—"شکیل بولا ۔”منا سردار کا جون سب سے بڑکا لڑکا ہے – – – – – – – – ارے یار کا نام ہے! – – – – – – کا نام ہے! – – – – – – – ہاں – – – – ہاں! فاتح عالم –
ابے میں انھیں جانا تھیں، رک ابھی فون لگائی. "شکیل نے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور فاتح عالم کا نمبر لگایا— بیل گئی.
"ہیلو—!! کیا گاتے عالم بولتے ہے—؟ "”ہاں! فاتح عالم بولت ہے؟ "”جی ہاں میں فاتح عالم بول رہا ہوں —” ادھر سے آواز آتی ہے۔
"اچھا بھائی —!میں کھیتاسرائے سے شکیلوا بولا تھوں—"”جی— جی—-!!!حکم فرمائیں شکیلوا _____ارے بھائی تو مسایرہ کرواوت ہے؟”
"جی ہاں —” فاتح عالم جواب دیتا ہے۔
"ہاں—! ابھی مسایرے کا پوسٹروا دیکھ رہے تھےتو سوچا بھین کو مطلع کردوں کہ ہم بھی آئیں گے. "
"ارے شکیل—! ای تہار مشاعرہ ہے اپنے دوستن کو بھی ساتھ لیکر آئیں۔ "”ٹھیک با—! ” شکیل کہتا ہے۔”پر بھیا— ہم دو لوگن کو آگے کی سیٹ پر بیٹھنا ہے!
"ارے شکیل جب بول دیا—ای تہار مشاعرہ ہے، جہاں من تہاں بیٹھا.”
شکیل جاوید سے مخاطب ہوتے ہوئے :” ہم بولت رہے نا کہ ای مسایرہ آپن ہوئے___ اب خوش!- "
فون پر دونوں کی گفتگو سن کر جاوید کے چہرے پر تھوڑی رونق بحال ہوئی تو بولا ذرا شعرا کی فہرست تو دیکھیں.
جلدی جلدی سے شکیل نے شعرا کی فہرست پر نظر دوڑائی.
_وسیم بریلوی جاوید سلطانپوری آرزو اشرف عارف رائے بریلوی جوہر کانپوری شاہد جمال فیض آبادی عنبر اعظمی ہاشم فیروزابادی حسن کاظمی ندیم فرخ_
شعرا کے نام دیکھے تو مایوس سا ہوکر رہ گیا! جیسا کہ اس سے کوئی قیمتی اثاثہ چھن لیا گیا ہو، بولا:
"یار سب بوکس شاعر بلا رکھے ہیں، چھمیا تو اس بار ہے ہی ناہن!”
شاعرات کے نام نیچے تھے جہاں شکیل کی نظریں ابھی تک نہیں پہنچی تھیں—جاوید زور سے ہنسا اور بولا :
"ارے پگلائے گا ہیا کا—؟” شاعرات کے نام کی طرف اشارہ کر کے بولا :”ای کا ہے—؟ ای چھمین ناہن—!!”
شکیل ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے :” ارے یار ہم خدئے پگلان ہیی_ادھر تو دھیان نا گئے_! "
شبینہ ادیب، نکہت امروہی، چاندی شبنم، دانش کنول شکیل مذکورہ نام پڑھ کر :
"ارے یہ تو باہوت بڑھیا فہرست ہے—!! "جاوید :”ہم نے کا کہاتھا! کہ ای مناسرداروا کا مشاعرہ ہے!”
"ہاں تو پھر 16 فروری کو پکا چلنا ہے— اور سن سفید کلپ کے کپڑے پہننے ہی اوہ دن— سالا چھمیاؤں کے ساتھ سلیفی بھی تو لینی ہے—"
شکیل جذباتی سا ہو جاتا ہے۔”ٹھیک با—!ای پرسوں با تو پرسوں چلئے کے با ۔سانجھے کے کھانا کھائے کے ترنت —"
جاوید ترکی بہ ترکی جواب دیتا ہے۔
16فروری آجاتی ہے۔شکیل اور جاوید دونوں چلنے کی تیاری کرتے ہیں اور بائک اٹھا کر مانی کلاں جونپور پہنچ جاتے ہیں— جاکر پنڈال کا معائنہ کرتے ہیں___مشاعرہ شروع ہونے ہی والا تھا_____ آگے سیٹیں پڑی تھیں، پورا میدان کھچا کھچ بھر چکا تھا— شعرا اسٹیج کی طرف بڑھ رہے تھے— کچھ آچکے تھے اور کچھ کھانا کر آنے ہی والے تھے.
ناظم مشاعرہ ندیم فرخ صاحب مشاعرے کی ابتدائی رسومات کے مراحل سے گزر رہے تھے— ریبن کٹ چکا تھا اور شمع بھی روشن ہوچکی تھی—
ناظم مشاعرہ کسی نعت گو شاعر کو دعوت کلام دینے ہی والا تھا کہ جاوید غصہ اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا :
"ای کا ہے! تیں کہت رہے. فاتح عالم ہمرے دوست ہیں! "”اب کاہیں بیٹھیں تہار سر پہ! "
ادھر شکیل بھی اسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھاکہ اچانک اس کی نظر فاتح عالم پر پڑی اور وہ فاتح عالم کے پاس پہنچ کر بولا :
"فاتح بھائی ہماری سییٹیں؟ "فاتح نے دوبندوں کو اگلی سیٹ سے اٹھا کر اشارہ کیا کہ تم دونوں وہاں بیٹھ جاؤ،اب دونوں خوش تھے.
ادھر مشاعرہ میں رسم نعت مکمل ہوچکی تھی. دونوں خوشی خوشی ایک ساتھ بیٹھ کر مشاعر سننے لگے .
ناظم مشاعرہ نے پہلے شاعر آرزو اشرف کو مدعو کیااور بہت ہی خوبصورت اشعار کے ساتھ دعوت سخن دی.
آرزو اشرف نے ایک مطلع ایک شعر پیش کیا-
گمان جتنا تھا سارا گمان ٹوٹ گیا
تمہارے ہجر میں دل کا مکان ٹوٹ گیا
تجھے ملال ہے بس چھت کے بیٹھ جانے کا
ہمارے سر پہ یہاں آسمان ٹوٹ گیا
جاوید نے شکیل کی طرف دیکھا، اور کہا :”یار اس کو جب بھی سنا، مزا نہیں آیا. "شکیل گردن ہلاتے ہوئے .”ہاں میں بھی اس کو چار بار سن چکا ہوں کچھ مزا نہیں آیا—"
آرزو اشرف اپنا کلام پیش کرکے اپنی جگہ لیتے ہیں.
ناظم مشاعرہ دوسرے شاعر کو دعوت دیتا ہے تو شکیل اور جاوید کھڑے ہوکر فرمائش کرتے ہیں. "ارے چاندنی شبنم کو بلائیں—! چاندنی شبنم کو—!!!!! "
"ارے بھائی—! سنجیدگی کا مظاہرہ کریں— ابھی تو ابتدا ہی ہوئی ہے__”ناظم مشاعرہ,کہہ کر چپ کر دیتا ہے.
ناظم مشاعرہ جاوید سلطانپوری کو مدعو کرتا ہے -جاوید پڑھنا شروع کرتے ہیں!
ہم اپنے پاس بھی رکھتے تھے آن بان کبھی
وہ حکم ہوتا تھا کھلتی تھی جب زبان کبھی
جنھیں سمیٹ دیا وقت کے تقاضوں نے
انھیں پروں میں فلک بوس تھی اڑان کبھی
تو دونوں لوگ مایوس ہوجاتے ہیں، اور اپنے اطراف میں دیکھتے ہیں، کوئی واہ واہ واہ کرتا ہے تو یہ بھی نیچے گردن جھکا کر واہ واہ واہ کرتے ہیں—
شاعر مائک سے چلا جاتا ہے— تب دونوں کی گردن اوپر اٹھتی ہے!
ناظم مشاعرہ اسی طرح ایک اور شاعر کو بلاتا ہے. شاعر آتا ہے بہترین غزل پڑھتا ہے—لیکن اس بار دونوں حضرات واٹس ایپ پر چیٹنگ میں مشغول ہوجاتے ہیں! جاوید شکیل سے کہتا ہے :”کہ جب کوئی چھمیاں آئے گی تو بول دینا!” ٹھیک ہے—! شکیل ردعمل کرتا ہے۔
دونوں واٹس ایپ چیٹنگ پر لگ کر اس دنیا سے الگ تھلگ سے ہوجاتے ہیں____اس قدر انہماک کہ انھیں مائک کی بھاری بھرکم آواز بھی انکے مشن سے ہٹا نہ سکی______ اس بیچ دو تین شعرا پڑھ کر چلے جاتے ہیں.
اچانک مشاعرہ میں ایک شور ہوتا ہے اور چاروں طرف سے مکرر مکرر کی آواز سنائی دیتی ہے۔۔۔اور کچھ لوگ انھیں کے برابر میں کھڑے ہوکر بولتے ہیں۔
"ارے ایک بار پھر بلاؤ—!!ہاشم فیروزابادی کو ایک بار پھر بلاؤ—!! "
اب دونوں ایک دم گھبراکے کھڑے ہوتے ہیں اور یہ بھی چلانے لگتے ہیں.” ارے بلاؤ—!!بلاؤ بلاؤ—!!! "
ہاشم صاحب ایک بار پھر مائک تھامتے ہیں اور پڑھنا شروع کرتے ہیں___ دونوں اس بار اپنی جگہ کھڑے ہو ہو کر داد دینے لگتے ہیں___
"سوئے ہوئے شیروں کو جگانے آج آیا ہوں "
فیروزابادی صاحب پڑھ کر چلے جاتے ہیں تو شکیل جاوید سے پوچھتا ہے :” ای کا پڑھا ہے ببوا !! سالا سارا مسایرہ ہی ایک دم جاگ گوا—! "
"سمجھ میں تو کچھ ناہی آوت ہے۔ہاں جب سب کھڑا ہوئے کے شور مچاوا تھن تو ہمرو سب واااااااااااااااہ واااااااااااااااہ کیا دیئے!-"جاوید کہتاہے۔مشاعرے کا شور ٹھنڈا ہوا تو ناظم مشاعرہ ، اپنا اسٹائل بدلتے ہوئے بڑے مائک پر آکر نظامت کرنے لگتے ہیں اور ایک لمبی تمہید باندھتے ہیں__
"آپ لوگوں کے دلوں کی دھڑکن— نسوانی لب و لہجہ کی ابھرتی ہوئی آواز— پروین شاکر کے نقش قدم پر چلنے والی شاعرہ____کو آپ سےروبرو کرتا ہوں جو آپ کے دیار میں پہلی بار حاضر ہورہی ہیں— امیدوں سے بڑھ کر داد و دعاسے نوازئے گا تاکہ محترمہ آپ کی محبتوں کو جہاں جائے یاد کرے میری مراد "محترمہ دانش کنول صاحبہ سے ہے— آئیں اور سامعین کو اپنی مخملی آواز سے محظوظ فرمائیں—"محترمہ دانش کنول صاحبہ!دانش کنول آتی ہیں اور تھوڑی دیرکے بعد کلام پڑھنا شروع کر دیتی ہیں-
” جب سے تمہارے شہر میں آئی ہوئی ہوں میں”
پڑھتی ہیں—دونوں حضرات پہلا مصرع ختم ہونے سے پہلے ہی داد دینا شروع کردیتے ہیں!”ارے واہ محترمہ کیا شعر ہے—! کا نقشہ کھینچا ہے—! واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ ارشاد ارشاد!!!! "”
جب سے تمہارے شہر میں آئی ہوئی ہوں میں
لگتا ہے خوشبوؤں میں نہائی ہوئی ہوں میں "
شعر پورا ہوا تو دونوں نے اپنی جگہ سے اچھل اچھل کر محترمہ کی حوصلہ افزائی کی.
جاوید نے داد و تحسین بند کردی اور وہ اچانک ہی استغراقی کیفیت میں چلا گیا!”ارے کا ہوا ببوا! ایک دم ہی ٹھنڈا پڑگوا! "شکیل نے استفسار کیا۔
"نہیں یار—!شعر چھوڑئے، پہلے اوکئے آنکھ دیکھا— کا کٹورا کے نائیں آنکھ— با اوکئے دانت دیکھا—! رنگ اور فگر ارے با پ رے باپ—!!کمال با ہو— شربتی ہونٹ گویا کی شہد کے چشمے ابلت با— پلکیا ٹپر ٹپر جھپکت— با ای تو مردوا گھا و کئے دیئ دلوا پر— سالا بجلی سی کوندتی ہے— اواج میں ایسن جادو با کہ روح وہی کے وور کھینچت با_________ (پہلے اس کی آنکھیں دیکھئے، کیا کٹورہ سی آنکھیں ہیں! رنگ اور فگر کیا کمال کا ہے! شربتی ہونٹ گویا کی شہد کے چشمے ابل رہے ہوں! پلکیں جھپکتی ہے تو دلوا پر سالا بجلی سی کوندتی ہے، آواز میں ایسا جادو کہ روح اسی کی طرف کھینچی جاتی ہے)___________ ! لہجہ کا نشیب و فراز سمندر کی موجوں کی مانند ہے! جسم چاندنی میں گندھا ہوا، پورا سراپا ہی کمال حسن کا نمونہ ہے! -"میں تو ای کا دیوانہ ہوگوا—"محترمہ نے پھر ایک نئی غزل کی ابتدا کی تو جاوید کھل اٹھا اور کہنے لگا:”دیکھا اس بار ہمار طرف ہی اشارہ تھا—"پھر کیا تھا!____ جاوید اپنی جیب سے دو ہزار کا نوٹ نکال کر محترمہ کی طرف بڑھا____لیکن ناظم مشاعرہ نے یہ کہہ کر_ اسے واپس کردیا_کہ یہ مشاعرے کی روایت کے خلاف ہے__ جاوید اپنا سا منہ لیکر واپس ہوا اور زیر لب یوں گویا ہوا۔”سالا دلوا ہی توڑ ڈالا—!! "
ادھر محترمہ اپنے حصہ کا وقت پورا کرکے واپس جانے لگیں تو جاوید اور شکیل اپنی جگہ سے کھڑے ہوکر زور زور سے چلانے لگے____”ایک بار اور بلاؤ—ایک بار اور بلاؤ— ایسے نہیں جانے دیں گے—!!لیکن اس بار بھی ناظم مشاعرہ ندیم فرخ صاحب نے یہ کہہ کر__ کہ وقت کی قلت اور ابھی کافی شعرا باقی ہیں جنھیں سننا ہے___ دونوں کو پھر مایوس کر دیا-ناظم مشاعرہ اگلے شاعر کا رخ کرتا ہے – – – – – – اور پر وقار آداب و القاب سے اودھ کے ایک کہنہ مشق شاعر کو دعوت سخن دیتا، تعریفی وتوصیفی کلمات اس بار قدرے طویل ہوتے ہیں،____دونوں ناظم مشاعرہ کا منہ تکنے لگتے ہیں اور دل میں اچھا گمان لیے شاعر کے نام کا انتظار کرتے ہیں_______ ناظم مشاعرہ کی مراد فیض آباد کے خوبصورت شاعر شاہد جمال پر ٹھہرتی ہے، تو جاوید کے منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکلتا ہے :”ارے – – – – – ای تو شاہد جمال ہین! آئی کا پڑھے گا یار! جمانا سے سمت چلا آواتھئی. مجا نائے آوت-” (ایک زمانے سے سنتے چلے آئیں کوئی مزا نہیں آتا)شاہد جمال صاحب غزل کا مطلع پیش کرتے –
کہیں کا غصہ کہیں کی گھٹن اتارتے ہیں
غرور یہ ھے کہ کاغذ پہ فن اتارتے ہیں
"یار! اچھا مقطع ہے! ” شکیل کہتا ہے۔”واہ واہ شاہد بھائی واہ – – – – – کیا کہنے ہیں! "”گھونیا سمجھت ناہی ،داد دیوجاوت ہے!کا ہے اس میں! "جاوید جھنجھلاہٹ میں آ جاتا ہے۔”ای ہم پہ کس کا غصہ اتارت ہے؟ اپنا غصہ اپنے گھر جائیکے اتار—"” ارے ببوا ہمار بھی تبھی بولت ہے جب پیچھے سے لوگ بولت ہے-"
شکیل سمجھانے کے انداز میں بولتا ہے۔
ادھر ان دونوں کے دوستانہ نوک جھونک ختم نہیں ہوتی کہ شاہد جمال صاحب غزل کے باقی اشعار___
سنی ھے ٹوٹتے پتوں کی ھم نے سرگوشی
یہ پیڑ پودے بھی کیا پیرہن اتارتے ہیں
سیاسی لوگوں سے امید کیسی خاک وطن
وطن کا قرض کہیں راہزن اتارتے ہیں
زمیں پہ رکھ دیں اگر آپ اپنی شمشیریں
تو ھم بھی اپنے سروں سے کفن اتارتے ہیں
اتر کے روح کی گہرائیوں میں ھم ہر روز
خود اپنی قبر میں اپنا بدن اتارتے ہیں
خدا کرے کہ سلامت رہیں یہ بوڑھے شجر
کہ ھم پرندے یہیں پر تھکن اتارتے ہیں_
پڑھ کر اپنی جگہ بیٹھ جاتے ہیں—–مشاعرہ پر غنودگی کے بادل چھا جاتے ہیں—— ہر سامع اپنی اپنی پسند کے انتظار میں ہوتا ہے—ایسا لگتا ہے جیسا کہ ایک خاموش بھیڑ مون سادھ گئی ہو__جاوید اپنا موبائل نکالتا ہے اور فیسبک واٹس ایپ کا چکر لگاکر آتا ہے-مَیسینجر پر ایک – دو فیسبک پرستوں سے علیک سلیک ہوتی ہے_اور گویا ہوتا ہے!”اے شکیل! جب فلاں شاعرہ کانمبروا آئے گا مجھے جگا دینا——-"” کیوں تم سو رہے ہو—؟!! "” تو کونو اپنا وقت برباد کرے ببوا—"جاوید کے لہجے میں ابھی بھی جھنجھلاہٹ تھی۔”تو کونسی شاعرہ پر جگانا ہے—؟! "”شبینہ ادیب———-” ۔”ارے ناہی ببوا، وہپر ناہی، او تو اب بڈھیاگئی _دس سال پہلے تک اس میں اپنا انٹریس تھا اب ناہی – اس وقت وہ بہت اچھی دکھتی تھی۔ "جاوید جواب دیتا ہے.”تو پھر کس پر جگانا ہے—؟! "”نکہت پر”؟”ہٹ یار "شکیل تم پگلا گئے ہو یار!، نکہت میں کا رکھا ہے! اب او مٹیا گئی ہے، ہاں! سات سال پہلے جب وہ اعظم گڑھ کے مشاعرے میں آئی تھی تو اس وقت ایک دم جوان تھی اور خوبصورت بھی— جس دن سے وہ مٹیائی ہے اس دن سے کا پڑھت ہے او! "جاوید حسن اور فٹنیس کا تجزیہ کرتا ہے۔ہلکی ہلکی مسکان کے ساتھ۔”ہاں تو میں تہار دلوا کی مراد سمجھ گوا ببوا—!! "شکیل چسکی لیتاہے۔”چاندنی شبنم—؟ "جاویداپنا ہاتھ شکیل کے پر مارتے ہوئے _”ارے تو سب جانت ہے یار_” بس مجھے جگا دینا. "ٹھیک با—” شکیل کہتا ہے۔اس بیچ جوہر کانپوری،مائک پر چیخ پکار کرکے چلے جاتے ہیں اور دونوں کو اپنی باتوں کے انہماک کی وجہ سے کچھ پتہ نہیں چلتا! کوئ شور نہیں ہوتا—کوئی ڈیمانڈ بھی نہیں ہوتی—کہیں سے مکرر مکرر— ارشاد ارشاد کی صدائیں بھی بلند نہیں ہوتیں—جاوید اپنے گھٹنوں میں سر دیکر سویا رہتا ہے.
شبینہ ادیب آتی ہے ایک بار کہتی بھی ہے کہ بھائی صاحب کو جگا دو لیکن جاوید پر کوئی اثر نہیں ہوتا— تھوڑا شور و غل ہوتا ہے لیکن وہ اس کی نیند پر اثر انداز نہیں ہوپاتا.اب شکیل جاوید کو جگاتا ہے! اور کہتا ہے :”اٹھو—!!”نمبر وا آگیا—"جاوید ہڑ بڑا کے اٹھتا ہے اور دیکھتا ہےکہ__اس کے سامنے مائک پر__ چاندنی شبنم کھڑی ہے.
ابھی محترمہ نے پڑھنا شروع بھی نہیں کیا تھا، کہ جاوید زور زور سے چلانے لگتا ہے "واہ واہ واہ کا کہنے ہیں محترمہ! کا بات ہے! کا غزل سنائی ہے! واہ واہ واہ” جاوید کو دیکھ کر ناظم مشاعرہ اور سب لوگ حیران رہ جاتے ہیں!
ارے بھائی اس بندے کو کیا ہوا ابھی تو محترمہ نے کچھ پڑھا بھی نہیں، یہ کیوں چلانے لگا؟.شکیل جاوید کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے :
” یار صبر کرو______ !!ابھی تو محترمہ نے کچھ پڑھا بھی نہیں____ جب پڑھے گی تبھی اچھل لینا—"
"اچھا ابھی پاڑھت ناہی—!! ” وہ پاگل سا جواب دیتا ہے۔”اے ناہی ببوا دھیرج دھر، پڑھے گی تو خوب اچھل کود لینا—"شکیل اسے سمجھانے کے لہجے میں کہتا ہے۔
محترمہ مائک پر آنے کی رسومات_فلاں کا شکریہ، فلاں کی عنایت، فلاں کی دعا، صدر محترم کی اجازت وغیرہ وغیرہ _پوری کرنے کے بعد گویا ہوتی ہیں.
غزل کا مطلع حاضر کرتی ہوں اور مجھے علم ہے کہ” مانی کلاں کے لوگ بڑے ہی محبت نواز ہیں” ناظم مشاعرہ ندیم فرخ صاحب اس پر ترک لیتے ہوئے کہتے ہیں :
” کہ محترمہ یہاں پر صرف مانی کلاں ہی کے لوگ نہیں ہیں —اطراف سے بھی آپ کو محبتیں ملیں گی—"”جی میں حاضر کرتی ہوں—"میرے رشک قمر کی دھن پر محترمہ غزل کا مطلع اور شعر پڑھتی ہیں –
کتنی چاہت ہے مجھ سے مرے ہم نشیں تونے مجھ کو بتایا مزا آگیا
چاندنی کی غزل کو بھری بزم میں تونے سب کو سنا یا مزا آگیا
میں ترے پیار میں یار مدہوش تھی تیری یادیں سمیٹے میں بے ہوش تھی
پھر تو ایسا ہوا میرے پیارے پیا، تونے مجھ کو جگا یا مزا آگیا
جاوید اور شکیل دونوں اپنی جگہ سے کھڑے ہوکر داد دیتے ہیں، واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ کیا بات ہے محترمہ! کیا مطلع ہے! کیا تیر مارا، دل پہ چلائی چھریاں، واہ پورے مشاعرہ میں یہی شور کہ مکرّر مکرر_جاوید نے اپنے منہ میں انگلیاں ڈال کر سیٹی بجائی تو پورا مشاعرہ ہی سیٹیوں سے گونج اٹھا—ہر طرف سے سیٹی کی آواز آنے لگی!بمشکل ندیم فرخ صاحب___ ناظم مشاعرہ___ نے لوگوں کو سنجیدہ کیا اور کہا کہ یہ ایک ادبی محفل ہے، ادب ملحوظ رکھا جائے اور ہاں! جو جوان لڑکے محترمہ کو دیکھ کر اچھل رہے ہیں یاد رہے! ان کے ابو بھی اسی محفل میں موجود ہیں.
جاوید نے شکیل کے کان میں کہا:”ارے ہمرئے ابو کہاں ہیں جو بولا تھین بھی یہیں کا—؟ "”کونو بولت— ؟” شکیل کہتا ہے۔”ابھی ناظم مشاعرہ کا بولا—؟ ” جاوید کا لہجہ تیکھا تھا۔
"ارے ہونے دو جو ہے، اپن کو تو مزا آگیا. "
” ارے ببوا اسی کا تو انتظار تھا” دیکھی ہمار چوئیس! سالا مشاعرہ ہی لوٹ لیا،تنوا میں آگ لگادی.—"جاوید بے قابو سا ہوجاتا ہے۔
اسٹیج پر بیٹھے شعرا_وسیم بریلوی، شاہد جمال، جاوید سلطانپوری_ سب حیران اور ہونٹوں پر ہلکی ہلکی مسکان سجائے محترمہ کو نہار رہے تھے.
محترمہ مائک چھوڑنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن لونڈے لپاڑے پھر سے شور___بلاؤ —بلاؤ— چاندنی کو بلاؤ____ بپا کردیتے ہیں—آخر محترمہ اپنی جگہ لے لیتی ہیں ۔
تاہم چاندنی کے بعد آہستہ آہستہ پنڈال بھی خالی ہونا شروع ہوجاتا—ناظم مشاعرہ ملتجی رہتا ہے کہ ابھی ہمارے درمیان ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری اردو دنیا کے معتبر شاعر حضرت وسیم بریلوی تشریف فرما ہیں، لہذا آپ لوگ سنجیدگی کا مظاہرہ فرمائیں اور حضرت کو سن کر جائیں.
ناظم مشاعرہ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے، بغیر کسی آداب والقاب کے وسیم صاحب کو دعوت سخن دیدیتے ہیں.وسیم صاحب آتے ہیں اور بغیر کسی تمہید کے ایک مطلع ایک شعر پیش کرتے ہیں
جواں نظروں پہ کب انگلی اٹھانا بھول جاتے ہیں
پرانے لوگ ہیں اپنا زمانہ بھول جاتے ہیں
جنھیں آپس میں ٹکرانے سے ہی فرصت نہیں ملتی
انھیں شاخوں پہ پتے لہلہانا بھول جاتے ہیں
وسیم صاحب کو کوئی رسپانس نہیں ملتا،بلکہ لوگ آمدہ خروج رہتے ہیں پھر ایک شعر اور پڑھتے ہیں.
گناہ گار تو نظریں ہیں آپکی ورنہ
کہاں یہ پھول سے چہرے نقاب مانگتے ہیں
جاوید شکیل سے :ارے ببوا چل کھڑا ہو ! چاندنی کے ساتھ سیلفی بھی تو لینی ہے-
ثمر خانہ بدوش____ سہارنپور اترپردیش انڈیا

ٓ
ثمر خانہ بدوش____ سہارنپور اترپردیش انڈیا