نصیحت اسماعیل میرٹھی کی بچوں کے لیے نظم
کرے دشمنی کوئی تم سے اگرجہاں تک بنے تم کرو درگزر کرو تم نہ حاسد کی باتوں پہ غورجلے جو کوئی اس کو جلنے دو
کرے دشمنی کوئی تم سے اگرجہاں تک بنے تم کرو درگزر کرو تم نہ حاسد کی باتوں پہ غورجلے جو کوئی اس کو جلنے دو
بنایا ہے چڑیوں نے جو گھونسلہ سو ایک ایک تنکا اکٹھا کیا گیا ایک ہی بار سورج نہ ڈوب مگر رفتہ رفتہ ہوا ہے غروب
بچوں کے لیے کہانی موجِ سخن ڈیسک بہت پہلے کی بات ہے کہ ایک گاؤں میں ایک بوڑھی عورت اور اس کی عقل مند، شوخ
تحریر شان الحق حقی ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے کچھ روپیہ قرض لیا۔ مگر ٹھہریے پہلے کچھ قرض
امی نے دی دودھ ملائی ننھے نے خوش ہو کر کھائی گڑیا بھی پھر دوڑ ی آئی چمچہ پیالی ساتھ میں لائی مجھ کو بھی
بھیا لائے اک کمپیوٹرساری دنیا اس کے اندر کھیل ہیں اس میں پیارے پیارےعلم و ہنر کے اس میں خزانے گوگل پر سب مل جاتا
چڑیا چڑیا سن لے تو دانا دنکا چن لے تو تیرے بچے بھوکے ہیں چوں چوں چوں چوں کرتے ہیں تیری راہیں تکتے ہیں مجھ
اک پرندہ یہ کہنے کو کالا سا ہے نام کوئل ہے اس کا سریلی ہے یہ گانا گاتی ہے بیٹھے درختوں پہ جب آنکھیں اس
بھاگ کر مکتب سے جو بچپن گزاریں کھیل میں وہ بڑے ہو کر پہنچ جاتے ہیں اکثر جیل میں ان سنی کرتے ہیں جو باتیں
خواب نگر اک بستی ہےڈولی اس میں ہی رہتی ہے پریاں اس کی ساتھی ہیں خواب نگر میں آتی ہیں اونچے اونچے پیڑوں پر جھولا
چیتا ہاتھی گینڈا بندر رہتے ہیں جنگل کے اندر بھالو بھینسا سانپ اور گیدڑ شیر کو مانا سب نے لیڈر جنگل میں ہے ندیا بہتی
میری گڑیا پیاری پیاری نیلی پیلی آنکھوں والی مجھ سے باتیں کرتی ہے وہ ہنستی بھی ہے روتی بھی ہے مجھ کو خوب ستاتی ہے
مجھ کو بچہ نہ سمجھو مرے دشمنوں میرے سینے میں جذبہ ہے ایمان کا میرے پرچم پہ ہے اک نشاں چاند کا میرے سینے میں
میری بلی پیاری سی ہے موٹی تازی بھولی سی ہے دودھ جلیبی یہ کھاتی ہے بھاگ کے چھت پر چڑھ جاتی ہے سیر کو باہر
اب مٹھو میاں میرے مٹھو میاں اب اداسی کا چہرے پہ کیوں ہے نشاں اب کرو ٹیں ٹیں نقلیں ہماری اتارو پروں کو ہوا میں