آؤ آؤ سیر کو جائیں
آؤ آؤ! سیر کو جائیں باغ میں جا کر شور مچائیں اُچھلیں کُودیں ناچیں گائیں آؤ، آؤ! سیر کو جائیں کالے کالے بادل آئےلہرائے اور
آؤ آؤ! سیر کو جائیں باغ میں جا کر شور مچائیں اُچھلیں کُودیں ناچیں گائیں آؤ، آؤ! سیر کو جائیں کالے کالے بادل آئےلہرائے اور
ہے ہمیشہ مری خُدا پہ نظررات ہو، دن ہو، شام ہو کہ سحرنہ اُجالے میں ہے کسی کا ڈرنہ اندھیرے میں کوئی خوف و خطرکیونکہ
کلام: چراغ حسن حسرت آؤ ہم بن جائیں تارےننھے ننھے پیارے پیارےدھرتی سے آکاش پہ جائیںچمکیں دمکیں ناچیں گائیںبادل آئے دھوم مچاتےلے کر کالے کالے
رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی اس مالک کو کیوں نہ پکاریں جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں خاک کو
خبر دن کے آنے کی میں لا رہی ہوں اجالا زمانہ میں پھیلا رہی ہوں بہار اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں پکارے گلے صاف
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زماناوہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا چہچہاناآزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کیاپنی خوشی سے آنا، اپنی
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میریزندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری! دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے!ہر جگہ