اعجاز رحمانی

کراچی شہر سے تعلق رہا آپ کی نعتیہ شاعری کے ساتھ ساتھ شخصیت کی شگفتگی آپ کے لیے سامانِ نجات بنے گا اعجاز رحمانی کی شاعری میں استعارے اور تشبیہات کا استعمال جس انداز میں دکھائی دیتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے آپ کے شاگردوں کی اچھی خاصی تعداد شہر کراچی میں عمدہ اشعار کہہ رہی ہے

ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں

ہوا کے واسطے اِک کام چھوڑ آیا ہوںدِیا جلا کے سرِشام چھوڑ آیا ہوں امانتِ سحر و شام چھوڑ آیا ہوںکہیں چراغ، کہیں جام چھوڑ آیا ہوں کبھی نصیب ہو فُرصت تو اُس کو پڑھ لیناوہ ایک خط جو تیرے نام چھوڑ آیا ہوں ہوائے دشت و بیاباں بھی مُجھ پہ برہم ہےمیں اپنے گھر […]

ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں Read More »

رہِ طلب کے جو آداب بھول جاتے ہیں

رہِ طلب کے جو آداب بھول جاتے ہیںوہ گمرہی کے بھی اسباب بھول جاتے ہیں کمند چاند ستاروں پہ ڈالنے والےچراغِ منبر و محراب بھول جاتے ہیں جو آ کے ڈوب گئے شہر کے سمندر میںوہ اپنے گاؤں کے تالاب بھول جاتے ہیں تری قبا کے دھنک رنگ دیکھنے والےردائے انجم و ماہتاب بھول جاتے

رہِ طلب کے جو آداب بھول جاتے ہیں Read More »

رہِ طلب کے جو آداب بھول جاتے ہیں

رہِ طلب کے جو آداب بھول جاتے ہیںوہ گمرہی کے بھی اسباب بھول جاتے ہیں کمند چاند ستاروں پہ ڈالنے والےچراغِ منبر و محراب بھول جاتے ہیں جو آ کے ڈوب گئے شہر کے سمندر میںوہ اپنے گاؤں کے تالاب بھول جاتے ہیں تری قبا کے دھنک رنگ دیکھنے والےردائے انجم و ماہتاب بھول جاتے

رہِ طلب کے جو آداب بھول جاتے ہیں Read More »

ظالم سے مصطفیٰ کا عمل چاہتے ہیں لوگ

ظالم سے مصطفیٰ کا عمل چاہتے ہیں لوگسوکھے ہوئے درخت سے پھل چاہتے ہیں لوگ کافی ہے جن کے واسطے چھوٹا سا اک مکاںپوچھے کوئی تو شیش محل چاہتے ہیں لوگ سائے کی مانگتے ہیں ردا آفتاب سےپتھر سے آئنے کا بدل چاہتے ہیں لوگ کب تک کسی کی زلف پریشاں کا تذکرہکچھ اپنی الجھنوں

ظالم سے مصطفیٰ کا عمل چاہتے ہیں لوگ Read More »

رنگ موسم کے ساتھ لائے ہیں

رنگ موسم کے ساتھ لائے ہیںیہ پرندے کہاں سے آئے ہیں بیٹھ جاتے ہیں راہ رو تھک کرکتنے ہمت شکن یہ سائے ہیں دھوپ اپنی زمین ہے اپنیپیڑ اپنے نہیں پرائے ہیں اپنے احباب کی خوشی کے لئےبلا ارادہ بھی مسکرائے ہیں دشمنوں کو قریب سے دیکھادوستوں کے فریب کھائے ہیں ہم نے توڑا ہے

رنگ موسم کے ساتھ لائے ہیں Read More »

کتنے باہوش ہو گئے ہم لوگ

کتنے باہوش ہو گئے ہم لوگخود فراموش ہو گئے ہم لوگ جس نے چاہا ہمیں اذیت دیاور خاموش ہو گئے ہم لوگ دل کی آواز بھی نہیں سنتےکیا گراں گوش ہو گئے ہم لوگ ہم کو دنیا نے پارسا سمجھاجب خطا کوش ہو گئے ہم لوگ پی گئے جھڑکیاں بھی ساقی کیکیا بلانوش ہو گئے

کتنے باہوش ہو گئے ہم لوگ Read More »

خشک دریا پڑا ہے خواہش کا

خشک دریا پڑا ہے خواہش کاخواب دیکھا تھا ہم نے بارش کا مستقل دل جلائے رکھتا ہےہے یہ موسم ہوا کی سازش کا اس سے کہنے کو تو بہت کچھ ہےوقت ملتا نہیں گزارش کا کوئی اس سے تو کچھ نہیں کہتابو رہا ہے جو بیچ رنجش کا پا بہ زنجیر چل رہے ہیں جو

خشک دریا پڑا ہے خواہش کا Read More »

اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا

اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گاسورج کو سمندر میں اترنا ہی پڑے گا فطرت کے تقاضے کبھی بدلے نہیں جاتےخوشبو ہے اگر وہ تو بکھرنا ہی پڑے گا پڑتی ہے تو پڑ جائے شکن اس کی جبیں پرسچائی کا اظہار تو کرنا ہی پڑے گا ہر شخص کو آئیں گے نظر رنگ

اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا Read More »

ہنسی لبوں پہ سجائے اداس رہتا ہے

ہنسی لبوں پہ سجائے اداس رہتا ہےیہ کون ہے جو مرے گھر کے پاس رہتا ہے یہ اور بات کہ ملتا نہیں کوئی اس سےمگر وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سورجاسی جگہ وہ ستارہ شناس رہتا ہے گزر رہا ہوں میں سودا گروں کی بستی سےبدن پہ

ہنسی لبوں پہ سجائے اداس رہتا ہے Read More »

اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے

اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرےمگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے اسے تو اپنی بھی صورت نظر نہیں آتیوہ اپنے شیشۂ دل کی تو گرد صاف کرے کیا جو اس نے مرے ساتھ نا مناسب تھامعاف کر دیا میں نے خدا معاف کرے وہ شخص جو کسی مسجد میں جا

اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے Read More »