رضی اختر شوق

رضی اختر شوق کا اصل نام خواجہ رضی الحسن انصاری تھا اور وہ 23 اپریل 1933ءکو سہارنپور میں پیدا ہوئے۔[1] اترپردیش انہوں نے ابتدائی تعلیم حیدر آباد دکن سے حاصل کی اور جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کیا۔تقسیم ہند کے بعد کراچی منتقل ہو گئے اور انہوں نے جامعہ کراچی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ پھر ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، جہاں انہوں نے اسٹوڈیو نمبر نو کے نام سے بے شمار خوب صورت ڈرامے پیش کئے۔ رضی اختر شوق جدید لب و لہجے کے شاعر تھے اور ان کے شعری مجموعوں میں مرے موسم مرے خواب اورجست کے نام شامل ہیں۔ مرے موسم مرے خواب پر انہیں اکادمی ادبیات پاکستان نے ہجرہ ایواڈ ایوارڈ سے نوازا رضی اختر شوق نے 22 جنوری 1999ءکو کراچی میں وفات پائی ۔ وہ کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں

انہی گلیوں میں اک ایسی گلی ہے

انہی گلیوں میں اک ایسی گلی ہےجو میرے نام سے تنہا رہی ہے اب اس سے اور بھی شمعیں جلا لوسواد جاں میں اک مشعل جلی ہے ہمارے سر گئے سنگ حریفاںمے و مینا سے آفت ٹل گئی ہے میں بہر آزمائش بھی جلا ہوںکہ دیکھوں مجھ میں کتنی روشنی ہے الٰہی خیر ہو ان […]

انہی گلیوں میں اک ایسی گلی ہے Read More »

پھر جو دیکھا دور تک اک خامشی پائی گئی

پھر جو دیکھا دور تک اک خامشی پائی گئیمیں تو سمجھا تھا کہ اک میری ہی گویائی گئی پھر وہی بادل کہ جی اڑنے کو چاہے جن کے ساتھپھر وہی موسم کہ جب زنجیر پہنائی گئی پھر وہی طائر وہی ان کی غزل خوانی کے دنپھر وہی رت جس میں میری نغمہ پیرائی گئی کچھ

پھر جو دیکھا دور تک اک خامشی پائی گئی Read More »

روز اک شخص چلا جاتا ہے خواہش کرتا

روز اک شخص چلا جاتا ہے خواہش کرتاابھی آ جائے گا بادل کوئی بارش کرتا گھر سے نکلا تو جہاں زاد خدا اتنے تھےمیں انا زاد بھی کس کس کی پرستش کرتا ہم تو ہر لفظ میں جاناں تری تصویر ہوئےاس طرح کون سا آئینہ ستائش کرتا کسی وحشت زدہ آسیب کی مانند ہوں میںاک

روز اک شخص چلا جاتا ہے خواہش کرتا Read More »

سلامت آئے ہیں پھر اس کے کوچہ و در سے

سلامت آئے ہیں پھر اس کے کوچہ و در سےنہ کوئی سنگ ہی آیا نہ پھول ہی برسے میں آگہی کے عجب منصبوں پہ فائز ہوںکہ آپ اپنا ہی منکر ہوں اپنے اندر سے نہ جانے کس کو یہ اعزاز فن ملا ہوگاتمام شہر میں بکھرے ہوئے ہیں پتھر سے اب اس کے موج و

سلامت آئے ہیں پھر اس کے کوچہ و در سے Read More »

وہ جنگ میں نے محاذ انا پہ ہاری ہے

وہ جنگ میں نے محاذ انا پہ ہاری ہےلہو میں آج قیامت کی برف باری ہے مچا ہوا ہے بدن میں لہو کا واویلاکہیں سے کوئی کمک لاؤ زہر کاری ہے یہ دل ہے یا کسی آفت رسیدہ شہر کی راتکہ جتنا شور تھا اتنا سکوت طاری ہے صداقتیں ہیں عجب عشق کے قبیلہ کی!اسی

وہ جنگ میں نے محاذ انا پہ ہاری ہے Read More »

وہ شاخ گل کی طرح موسم طرب کی طرح

وہ شاخ گل کی طرح موسم طرب کی طرحمیں اپنے دشت میں تنہا چراغ شب کی طرح خیال و فکر کی سچائیاں بھی شامل ہیںمرے لہو میں مرے شجرۂ نسب کی طرح وہ اپنی خلوت جاں سے پکارتا ہے مجھےمیں چاہتا ہوں اسے حرف زیر لب کی طرح خوشا یہ دور کہ وہ بھی ہے

وہ شاخ گل کی طرح موسم طرب کی طرح Read More »

رنگ اب یوں تری تصویر میں بھرتا جاؤں

رنگ اب یوں تری تصویر میں بھرتا جاؤںتجھ پہ رنگ آئے میں جاں سے بھی گزرتا جاؤں وہ دیا ہوں کہ ہواؤں سے بھی ڈرتا جاؤںفرط پندار سے پھر رقص بھی کرتا جاؤں عجب آشوب دیا میرے خدا نے مجھ کواک تمنائے مسیحائی میں مرتا جاؤں مجھ کو جھٹلاتی رہیں وہ مری منکر آنکھیںاور میں

رنگ اب یوں تری تصویر میں بھرتا جاؤں Read More »

سفر کٹھن ہی سہی کیا عجب تھا ساتھ اس کا

سفر کٹھن ہی سہی کیا عجب تھا ساتھ اس کااندھیری رات میں میرا دیا تھا ہاتھ اس کا کچھ ایسی نیند سے جاگی کہ پھر نہ سوئی وہ آنکھجلا کیا یوں ہی کاجل تمام رات اس کا تمام شب وہ ستاروں سے گفتگو اس کیتمام شب وہ سمندر سا التفات اس کا کبھی وہ ربط

سفر کٹھن ہی سہی کیا عجب تھا ساتھ اس کا Read More »

وہ شاخ گل کہ جو آواز عندلیب بھی تھی

وہ شاخ گل کہ جو آواز عندلیب بھی تھیہوئی جو خشک تو میرے لیے صلیب بھی تھی دیار سنگ میں سر پھوڑتی پھری برسوںمری صدا کہ جو اس دور کی نقیب بھی تھی جو شمع دور تھی اس نے فقط دھواں ہی دیااسی کی لو سے جلا ہوں جو کچھ قریب بھی تھی سرشت حسن

وہ شاخ گل کہ جو آواز عندلیب بھی تھی Read More »

وہ تمام رنگ انا کے تھے وہ امنگ ساری لہو سے تھی

وہ تمام رنگ انا کے تھے وہ امنگ ساری لہو سے تھیوہ جو ربط ضبط گلوں سے تھا جو دعا سلام سبو سے تھی کوئی اور بات ہی کفر تھی کوئی اور ذکر ہی شرک تھاجو کسی سے وعدۂ دید تھا تو تمام شب ہی وضو سے تھی نہ کسی نے زخم کی داد دی

وہ تمام رنگ انا کے تھے وہ امنگ ساری لہو سے تھی Read More »