شاہدہ حسن

شاہدہ حسن(پیدائش: 24 نومبر 1953، چٹاگانگ، بنگلہ دیش) ایک ہم عصر اردو شاعر ہ ہے ۔ پاکستان میں مقیم ، وہ اپنی نظموں اور غزلوں کے لئے مشہور ہیں۔ حسن نے اردو شاعری میں بہت کچھ لکھا ہے ، جو دو مجاز مجموعوں میں شائع ہوا ہے ، "یہاں کچھ پھول رکھے ہیں "اور "ایک تارا ہے سرہانے میرے انہوں نے جامعہ کراچی سے انگریزی میں ماسٹر کر رکھا ہے۔کراچی سے تعلق رکھنے والی شاہدہ حسن ایک معلمہ بھی ہیں

ہوا پہ چل رہا ہے چاند راہ وار کی طرح

ہوا پہ چل رہا ہے چاند راہ وار کی طرحقدم اٹھا رہی ہے رات اک سوار کی طرح فصیل وادئ خیال سے اتر رہی ہے شبکسی خموش اور اداس آبشار کی طرح تڑپ رہا ہے بارشوں میں میرے جسم کا شجرسیاہ ابر میں گھرے ہوئے چنار کی طرح انہی اداسیوں کی کائنات میں کبھی تو […]

ہوا پہ چل رہا ہے چاند راہ وار کی طرح Read More »

کوئی تارہ نہ دکھا شام کی ویرانی میں

کوئی تارہ نہ دکھا شام کی ویرانی میںیاد آئے گا بہت بے سر و سامانی میں دم بخود رہ گیا وہ پرسش حالات کے بعدآئنہ ہو گئی میں عالم حیرانی میں دل سلامت رہے طوفاں سے تصادم میں مگرہاتھ سے چھوٹ گیا ہاتھ پریشانی میں سہل کرتی میں تخاطب میں مکرنا تجھ سےمشکلیں اور تھیں

کوئی تارہ نہ دکھا شام کی ویرانی میں Read More »

لمس آہٹ کے ہواؤں کے نشاں کچھ بھی نہیں

لمس آہٹ کے ہواؤں کے نشاں کچھ بھی نہیںخواب ہی خواب ہے یہ شہر یہاں کچھ بھی نہیں کوئی گزری ہوئی شاموں میں کبھی چمکا تھااس گھنی شب کے اندھیرے میں عیاں کچھ بھی نہیں چند ساعت کے ستارے ہیں سر بام طلوعدن اتر جائیں تو پھر گھر کا سماں کچھ بھی نہیں اک خموشی

لمس آہٹ کے ہواؤں کے نشاں کچھ بھی نہیں Read More »

سبب کیا ہے کبھی سمجھی نہیں میں

سبب کیا ہے کبھی سمجھی نہیں میںکہ ٹوٹی تو بہت بکھری نہیں میں رکھی ہے گفتگو اس سے ہر اک پلسخن جس سے کبھی رکھتی نہیں میں یہ چوٹ اپنے ہی ہاتھوں سے لگی ہےکسی کے وار سے زخمی نہیں میں کروں کیوں یاد تیرے خال و خد ابشکستہ آئنے چنتی نہیں میں عجب تھی

سبب کیا ہے کبھی سمجھی نہیں میں Read More »

سلیقہ عشق میں میرا بڑے کمال کا تھا

سلیقہ عشق میں میرا بڑے کمال کا تھاکہ اختیار بھی دل پر عجب مثال کا تھا میں اپنے نقش بناتی تھی جس میں بچپن سےوہ آئینہ تو کسی اور خط و خال کا تھا رفو میں کرتی رہی پیرہن کو اور ادھرگماں اسے مرے زخموں کے اندمال کا تھا یہ اور بات کہ اب چشم

سلیقہ عشق میں میرا بڑے کمال کا تھا Read More »

سانحہ ہو کے رہا چشم کا مرجھا جانا

سانحہ ہو کے رہا چشم کا مرجھا جاناخواب لگتا ہے ترا خواب میں بھی آ جانا آنکھ تا دیر رہی موجۂ غم ناک میں ترحسن کا کھیل تھا آئینے کو چمکا جانا تو سر بام ہوا بن کے گزرتا کیوں ہےمیرے ملبوس کی عادت نہیں لہرا جانا دشت کے لب پہ ہے اس قطرۂ نیساں

سانحہ ہو کے رہا چشم کا مرجھا جانا Read More »

سراب شب بھی ہے خواب شکستہ پا بھی ہے

سراب شب بھی ہے خواب شکستہ پا بھی ہےکہ نیند مانگتے رہنے کی کچھ سزا بھی ہے تمام عمر چنوں گی میں ریزہ ریزہ تجھےپس غبار نگہ ایک آئینہ بھی ہے سپرد رقص کیا میں نے ہر تمنا کولہو کے شور کی اب کوئی انتہا بھی ہے میں کیوں نہ ایک ہی قطرہ سے سیر

سراب شب بھی ہے خواب شکستہ پا بھی ہے Read More »

سارے پتھر اور آئینے ایک سے لگتے ہیں

سارے پتھر اور آئینے ایک سے لگتے ہیںایک سی حالت رکھنے والے ایک سے لگتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے پھر کچھ ہونے والا ہےکچھ ہونے سے پہلے لمحے ایک سے لگتے ہیں پہلے کوئی راہ زیادہ لمبی لگتی تھیاب تو گھر کے سب ہی رستے ایک سے لگتے ہیں کیسے پہچانوں میں ان میں

سارے پتھر اور آئینے ایک سے لگتے ہیں Read More »

ٹھہرا ہے قریب جان آ کر

ٹھہرا ہے قریب جان آ کرجانے کا نہیں یہ دھیان آ کر آئینہ لیا تو تیری صورتہنسنے لگی درمیان آ کر ٹپکے نہ یہ اشک چشم غم سےجائے نہ یہ میہمان آ کر پلٹی جو ہوا گئے دنوں کیدہرا گئی داستان آ کر قدموں سے لپٹ گئے ہیں رستےآتا ہی نہیں مکان آ کر جا

ٹھہرا ہے قریب جان آ کر Read More »

وحشتوں کو بھی اب کمال کہاں

وحشتوں کو بھی اب کمال کہاںاب جنوں کار بے مثال کہاں خود سے بھی مانگتی نہیں خود کوتجھ سے پھر خواہش سوال کہاں میرے ہم رنگ پیرہن پہنےشام ایسی شکستہ حال کہاں صبح کی بھیڑ میں کہوں کس سےہو گئی رات پائمال کہاں میری سب حالتوں کو جان سکےکوئی ایسا شریک حال کہاں تیرے خوابوں

وحشتوں کو بھی اب کمال کہاں Read More »