عمیر نجمی

عمیر نجمیؔ کے نام سے شہرت پانے والے محمّد عمیر، 2 ستمبر 1986ء کو ؁ پنجاب کے خوب صورت شہر رحیم یار خان میں پیدا ہُوئے آپ کی تعلیم بی ایس سی آرکیٹیکچرل انجینئرنگ یو آئی ٹی لاہور سے کی ، ایف ایس سی ایف سی لاہور کالج سے، 2014ء سے باقاعدہ اپنے شعری سفر کا آغاز کیا آپ کو اپنے ہم عصر شعرا میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے

بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہےبچا ہے جو تجھ میں میرا حصہ نکالنا ہے یہ روح برسوں سے دفن ہے تم مدد کرو گےبدن کے ملبے سے اس کو زندہ نکالنا ہے نظر میں رکھنا کہیں کوئی غم شناس گاہکمجھے سخن بیچنا ہے خرچہ نکالنا ہے نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہاب […]

بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے Read More »

دائیں بازو میں گڑا تیر نہیں کھینچ سکا

دائیں بازو میں گڑا تیر نہیں کھینچ سکااس لئے خول سے شمشیر نہیں کھینچ سکا شور اتنا تھا کہ آواز بھی ڈبے میں رہیبھیڑ اتنی تھی کہ زنجیر نہیں کھینچ سکا ہر نظر سے نظر انداز شدہ منظر ہوںوہ مداری ہوں جو رہ گیر نہیں کھینچ سکا میں نے محنت سے ہتھیلی پہ لکیریں کھینچیںوہ

دائیں بازو میں گڑا تیر نہیں کھینچ سکا Read More »

ایک تاریخ مقرر پہ تو ہر ماہ ملے

ایک تاریخ مقرر پہ تو ہر ماہ ملےجیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ ملے رنگ اکھڑ جائے تو ظاہر ہو پلستر کی نمیقہقہہ کھود کے دیکھو تو تمہیں آہ ملے جمع تھے رات مرے گھر ترے ٹھکرائے ہوئےایک درگاہ پہ سب راندۂ درگاہ ملے میں تو اک عام سپاہی تھا حفاظت کے لئےشاہ زادی

ایک تاریخ مقرر پہ تو ہر ماہ ملے Read More »

کھیل دونوں کا چلے تین کا دانہ نہ پڑے

کھیل دونوں کا چلے تین کا دانہ نہ پڑےسیڑھیاں آتی رہیں سانپ کا خانہ نہ پڑے دیکھ معمار پرندے بھی رہیں گھر بھی بنےنقشہ ایسا ہو کوئی پیڑ گرانا نہ پڑے میرے ہونٹوں پہ کسی لمس کی خواہش ہے شدیدایسا کچھ کر مجھے سگریٹ کو جلانا نہ پڑے اس تعلق سے نکلنے کا کوئی راستہ

کھیل دونوں کا چلے تین کا دانہ نہ پڑے Read More »

مری بھنووں کے عین درمیان بن گیا

مری بھنووں کے عین درمیان بن گیاجبیں پہ انتظار کا نشان بن گیا سنا ہوا تھا ہجر مستقل تناؤ ہےوہی ہوا مرا بدن کمان بن گیا مہیب چپ میں آہٹوں کا واہمہ ہوامیں سر سے پاؤں تک تمام کان بن گیا ہوا سے روشنی سے رابطہ نہیں رہاجدھر تھیں کھڑکیاں ادھر مکان بن گیا شروع

مری بھنووں کے عین درمیان بن گیا Read More »