loader image

MOJ E SUKHAN

بسمل الہ آبادی

بسمل الہ آبادی کے نام سے شعری دنیا میں شہرت حاصل کی تخلص :’بسمل’ اصلی نام :سکھ دیو پرشاد پیدائش :11 Nov 1899 | الہٰ آباد, اتر پردیش وفات :23 Nov 1975 | الہٰ آباد, اتر پردیش نوح ناروی کے شاگرد، شاعری میں عوامی روز مرہ کو جگہ دی، غزلوں کے ساتھ اہم مذہبی اور ملی شخصیات پر نظمیں لکھیں

قابل شرح مرا حال دل زار نہ تھا

غزل قابل شرح مرا حال دل زار نہ تھا سننے والے تو بہت تھے کوئی غم خوار نہ تھا اب وہ جینے کے لئے سوچ رہا ہے تدبیر اپنے ہاتھوں جسے مرنا کبھی دشوار نہ تھا مجھ سے پوچھو تو قضا اس کی ہے موت اس کی ہے دوش احباب پہ جو مر کے گراں […]

قابل شرح مرا حال دل زار نہ تھا Read More »

آزار و جفائے پیہم سے الفت میں جنہیں آرام نہیں

غزل آزار و جفائے پیہم سے الفت میں جنہیں آرام نہیں وہ جیتے ہیں لیکن ان کو مرنے کے سوا کچھ کام نہیں افلاک کی گردش سے دم بھر دنیا میں ہمیں آرام نہیں وہ دن نہیں وہ اب رات نہیں وہ صبح نہیں وہ شام نہیں کیوں ہم نے محبت کی ان سے دقت

آزار و جفائے پیہم سے الفت میں جنہیں آرام نہیں Read More »

ساز ہستی کا عجب جوش نظر آتا ہے

غزل ساز ہستی کا عجب جوش نظر آتا ہے اک زمانہ ہمہ تن گوش نظر آتا ہے حسرت جلوۂ دیدار ہو پوری کیوں کر وہ تصور میں بھی روپوش نظر آتا ہے دیکھتے جاؤ ذرا شہر خموشاں کا سماں کہ زمانہ یہاں خاموش نظر آتا ہے آپ کے نشتر مژگاں کو چبھو لیتا ہوں خون

ساز ہستی کا عجب جوش نظر آتا ہے Read More »

تم کو یہ ہے اگر یقیں دل میں وہ جلوہ گر نہیں

غزل تم کو یہ ہے اگر یقیں دل میں وہ جلوہ گر نہیں ڈھونڈھا کرو تمام عمر ملنے کا عمر بھر نہیں آئے نہ آئے بے خبر کیا تجھے یہ خبر نہیں سانس کا اعتبار کیا شام ہے تو سحر نہیں دیر ہو کعبہ ہو کہ دل کس میں وہ جلوہ گر نہیں دیکھ سکوں

تم کو یہ ہے اگر یقیں دل میں وہ جلوہ گر نہیں Read More »

جو نہ کرنا تھا کیا جو کچھ نہ ہونا تھا ہوا

غزل جو نہ کرنا تھا کیا جو کچھ نہ ہونا تھا ہوا چار دن کی زندگی میں کیا کہیں کیا کیا ہوا یہ سمجھ کر ہم نہیں کہتے کسی سے راز دل اس طرف نکلا زباں سے اس طرف چرچا ہوا بھر کے ٹھنڈی سانس لیں بیمار نے جب کروٹیں وہ کلیجہ تھام کر کہنے

جو نہ کرنا تھا کیا جو کچھ نہ ہونا تھا ہوا Read More »

ان سے کہہ دو کہ علاجِ دلِ شیدا نہ کریں

غزل ان سے کہہ دو کہ علاجِ دلِ شیدا نہ کریں یہی اچھا ہے کہ بیمار کو اچھا نہ کریں کیا کہا پھر تو کہو ہم کوئی شکوا نہ کریں چپ رہیں ظلم سہیں ظلم کا چرچا نہ کریں یہ تماشا تو کریں رخ سے اٹھا دیں وہ نقاب ایک عالم کو مگر محو تماشا

ان سے کہہ دو کہ علاجِ دلِ شیدا نہ کریں Read More »

کسی طرح بھی کسی سے نہ دل لگانا تھا

غزل کسی طرح بھی کسی سے نہ دل لگانا تھا خیال یار میں دنیا کو بھول جانا تھا جو بے رخی تھی یہی رخ نہیں چھپانا تھا مرے خیال میں بھی آپ کو نہ آنا تھا اسی سبب سے وہ پردے میں چھپ کے بیٹھے ہیں کہ پردے پردے میں کچھ ان کو رنگ لانا

کسی طرح بھی کسی سے نہ دل لگانا تھا Read More »

جینے والا یہ سمجھتا نہیں سودائی ہے

غزل جینے والا یہ سمجھتا نہیں سودائی ہے زندگی موت کو بھی ساتھ لگا لائی ہے یہ بھی مشتاق ادا وہ بھی تمنائی ہے کھنچ کے دنیا ترے کوچے میں چلی آئی ہے کھل گئے نزع میں اسرار طلسم ہستی زیست کہتے ہیں جسے موت کی انگڑائی ہے کہہ گئے اہل چمن یہ ترے دیوانوں

جینے والا یہ سمجھتا نہیں سودائی ہے Read More »

یہ کیسی آگ ابھی اے شمع تیرے دل میں باقی ہے

غزل یہ کیسی آگ ابھی اے شمع تیرے دل میں باقی ہے کوئی پروانہ جل مرنے کو کیا محفل میں باقی ہے ہزاروں اٹھ گئے دنیا سے اپنی جان دے دے کر مگر اک بھیڑ پھر بھی کوچۂ قاتل میں باقی ہے ہوئے وہ مطمئن کیوں صرف میرے دم نکلنے پر ابھی تو ایک دنیائے

یہ کیسی آگ ابھی اے شمع تیرے دل میں باقی ہے Read More »

نہ رہے تم جو ہمارے تو سہارا نہ رہا

غزل نہ رہے تم جو ہمارے تو سہارا نہ رہا کوئی دنیائے محبت میں ہمارا نہ رہا اب کوئی اور زمانے میں سہارا نہ رہا جس کو کہتے تھے ہمارا ہے ہمارا نہ رہا دے دیا حضرت عیسیٰ نے اسے صاف جواب تیرے بیمار کا اب کوئی سہارا نہ رہا کیا کہیں حال زمانے کا

نہ رہے تم جو ہمارے تو سہارا نہ رہا Read More »