loader image

MOJ E SUKHAN

طاہر حنفی

طاہر حنفی 26  نومبر 1955 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے زمانہ طالب علمی سے ہی اردو ادب  میں دلچسپی لینا شروع کی اور 1972 سے باقاعدگی  سے شعر کہہ رہے ہیں  ۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے  1981 میں ایم اے سیاسیات اور 2007 میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم ایس سی ڈیفینس اینڈ اسٹریٹجیک سٹڈیز کی ڈگریاں حاصل کیں اب تک طاہر حنفی کے چھ  شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں شہر نارسا کے نام سے ان کا پہلا شعری مجموعہ کلام اپریل 2014 میں شائع ہوا جس کا دوسرا ایڈیشن صرف دوماہ بعد جون 2014 میں چھپادوسرا شعری مجموعہ گونگی ہجرت ستمبر 2019 میں اورتیسرا شعری مجموعہ خانہ بدوش آنکھیں اکتوبر 2020 میں میں شائع ہوا زندگی کے 66 برس کی مناسبت سے2021 میں 66 اشعار، 66 غزلوں اور اتنی ہی نثری نظموں پر مشتمل چوتھا شعری مجموعہ یرغمال خاک اگست میں منظر عام پر آیا.
2022 میں قیام پاکستان کے جشن الماسی  کی نسبت سے 75 غزلیات اور 75 اشعار پر مشتمل پانچواں شعری مجموعہ رشک افلاک جنوری میں شایع ہوا

آواز گم شدہ کے نام سے سو غزلوں سے زائد اور جنوبی امریکہ میں کہی گئی نظموں پر مشتمل چھٹا  شعری مجموعہ جنوری 2023 میں منظر عام پر آیا ہے

آگ کے صفحے پہ نقش ما و من رہ جائے گا

غزل آگ کے صفحے پہ نقش ما و من رہ جائے گا راکھ میں سچائی کا زندہ بدن رہ جائے گا حرف کی بارش تھمے تو دھند سے معنی اگیں لکھنے والا آپ سے گزرے گا فن رہ جائے گا خواہشوں کا مینہ ننگی آنکھ سے جب بہہ چکا چیختا چنگھاڑتا پیچھے بدن رہ جائے […]

آگ کے صفحے پہ نقش ما و من رہ جائے گا Read More »

دھرتی بھی سینہ زن ہے کہ سچائی چھین لی

غزل دھرتی بھی سینہ زن ہے کہ سچائی چھین لی بارش کی جل ترنگ نے تنہائی چھین لی نا بینا بیچتا ہے بصارت کو راہ میں گونگے نے جب سے نطق پذیرائی چھین لی ہم لوگ بھوک پیاس کی شدت نہ سہہ سکے فاقوں نے ہم سے قوت گویائی چھین لی یہ کس نے چاندنی

دھرتی بھی سینہ زن ہے کہ سچائی چھین لی Read More »

لاکھوں دنوں کے بوجھ تلے غم رسیدہ لوگ

غزل لاکھوں دنوں کے بوجھ تلے غم رسیدہ لوگ اپنی تلاش میں ہیں رواں سر بریدہ لوگ دھاگے خوشی کے اپنے بدن سے لپیٹ کر زخموں کی بستیوں میں رہے آب دیدہ لوگ بحران میرے اسم کو دے کر چلے گئے جو میرے عہد میں تھے کبھی ناشنیدہ لوگ پگھلا ہوا ہے ذہن تقاضوں کی

لاکھوں دنوں کے بوجھ تلے غم رسیدہ لوگ Read More »

بات سن اے چشم تر کچھ ہوش کر

غزل بات سن اے چشم تر کچھ ہوش کر ڈوب جائے گا یہ گھر کچھ ہوش کر خود کشی ہی مسئلے کا حل ہے کیا بام سے واپس اتر کچھ ہوش کر دشت کی جانب چلا تو ہے مگر سخت ہے یہ رہ گزر کچھ ہوش کر اب کیا جذبات میں گر فیصلہ روئے گا

بات سن اے چشم تر کچھ ہوش کر Read More »

میں تیری آنکھ میں رہ کر حجاب ہو جاؤں

غزل میں تیری آنکھ میں رہ کر حجاب ہو جاؤں تو حرف حرف پڑھے وہ کتاب ہو جاؤں مرے سوا کبھی تجھ کو لبھا سکے نہ کوئی میں تیرے واسطے وہ انتخاب ہو جاؤں تو آسمان کی وسعت میں لے کے جائے مجھے میں تجھ پہ فخر کروں آفتاب ہو جاؤں تو بوند بوند سے

میں تیری آنکھ میں رہ کر حجاب ہو جاؤں Read More »

مری اداسی کا نقش پا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل

غزل مری اداسی کا نقش پا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل یہ غم کی راتوں کو جانتا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل کسی کی آنکھوں میں دھیرے دھیرے اتر رہا ہے نمی کا بادل قلم سے کس کے نکل رہا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل شکستہ کاغذ پر آنسوؤں کا بنا ہوا

مری اداسی کا نقش پا ہے اداس لفظوں کا ایک جنگل Read More »

اک غم کی کہانی ہے اوراق شکستہ پر

غزل اک غم کی کہانی ہے اوراق شکستہ پر اور دل کی زبانی ہے اوراق شکستہ پر حال اپنا سنانا ہے اشعار کی صورت میں یہ عمر گنوانی ہے اوراق شکستہ پر تحریر پہ دھبوں کی صورت جو منقش ہے وہ آنکھوں کا پانی ہے اوراق شکستہ پر رکنا بھی اگر چاہوں مجھ سے نہ

اک غم کی کہانی ہے اوراق شکستہ پر Read More »

مجھ کو گلے لگا کے ہوئی زندگی خموش

غزل مجھ کو گلے لگا کے ہوئی زندگی خموش چپکے سے یوں حیات مری چل بسی خموش قصے وصال کے تو کتابوں میں رہ گئے پتوں پہ ہجر کی تھی کہانی وہی خموش سہمے ہوئے شجر کی بھی سجدہ کشائی تھی سجدہ کناں کو دیکھ کے مٹی ہوئی خموش ہاں ہاں ارے وہی وہی ہے

مجھ کو گلے لگا کے ہوئی زندگی خموش Read More »

ہاتھوں میں کشکول سوالی دھوپ نگر کے باسی

غزل ہاتھوں میں کشکول سوالی دھوپ نگر کے باسی سہہ لیتے ہیں سب کی گالی دھوپ نگر کے باسی گلیوں میں جو بھٹک رہے ہیں اک روٹی کی خاطر توڑیں گے وہ بھوک کی ڈالی دھوپ نگر کے باسی جن کے پاس نہیں ہیں کپڑے تن کو ڈھانپنے خاطر راتیں اوڑھتے ہیں وہ کالی دھوپ

ہاتھوں میں کشکول سوالی دھوپ نگر کے باسی Read More »

دریا رکا ہوا تھا مگر میں سفر میں تھا

غزل دریا رکا ہوا تھا مگر میں سفر میں تھا اک روشنی کا عکس بھی میرے ہنر میں تھا اوڑھا ہوا تھا سچ کا لبادہ وجود نے لیکن شعور جھوٹ کے اندھے نگر میں تھا ہر راستے کی دھول پروں میں سمیٹ کر انجان منزلوں کا پرندہ سفر میں تھا بازار میں تھی ہنستے چراغوں

دریا رکا ہوا تھا مگر میں سفر میں تھا Read More »